صدارتی نظام کے شوقین رابرٹ موگابے کو نہ بھولیں

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
5560 روپے کا ایک کلو آٹا
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رابرٹ موگابے نے افریقہ کے چند پسماندہ ترین ممالک میں شامل زمبابوے پر 1987سے 2017تک یعنی تقریبا 4دہائیاں حکومت کی۔تقریباً اتنی ہی مدت تک ایک اور افریقی ملک سوڈان پر فیلڈ مارشل عمر البشر کے اقتدار کی چادر تنی رہی۔

یمن پر 1990سے اب تک صرف 2ہی لوگ حکومت کر رہے ہیں پہلے علی عبد اللہ صالح اور اب منصور ہادی اور یہی حال آدھے سے زیادہ افریقی ممالک کا ہے،جہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے صدارتی نظام سایہ فگن ہے ۔یہ تمام لوگ اپنے اپنے ملکوں میں بطور صدر موجود رہے،یعنی ان ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے۔

اویس لطیف کے مزید کالمز پڑھیں:

دورہ پاکستان: آسٹریلوی کھلاڑی مائیکل ہولڈنگ کو غلط ثابت کریں

سید علی گیلانی کی جنرل مشرف سے جھڑپ کی کہانی

جاپان دنیااس وقت 4.872ٹریلین ڈالر کے ساتھ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے، مشرقی ایشیاء میں جزائر پر مشتمل اس ملک پر گزشتہ 4د ہائیوں میں 20وزرائے اعظم آ چکے ہیں،جاپانیوں پر تو جواہر لال نہرو کا وہ مشہور جملہ صادق آتا ہے جو حقیقت میں انہوں نے پاکستان کے حوالے سے کہا تھا۔

جواہر لال نہرو کا کہنا تھا کہ ’’میں سال میں اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنے پاکستان وزیر اعظم بدلتا ہے‘‘۔اسی طرح یورپ کا گرو برطانیہ ہے جہاں گزشتہ کئی سو سالوں سے پارلیمانی نظام رائج ہے اور 1980سے اب تک تقریبا 9وزرائے اعظم آ چکے ہیں، تاہم برطانوی معیشت دنیا کے ٹاپ 5ممالک میں ہی نظر آئے گی،یہی حالت تقریباً سارے یورپ کی ہے۔

جدید دنیا میں نظام حکومت کے مشہور ترین دو طریقہ کار رائج ہیں ایک صدارتی اور دوسرا پارلیمانی،تقریبا 90فیصد ممالک کا کار ہائے حکومت ان ہی دو نظاموں کے تحت چل رہا ہے،آپ اندازہ لگائیں اگر صدارتی نظام اتنا ہی اچھا ہے تو زمبابوے، یمن، سوڈان، کینیا، گھیمبیا، میکسیکو اور درجنوں دیگر ممالک کے عوام کی قسمت کیوں نہیں جا گ رہی؟

 اگر پارلیمانی نظام اتنا ہی برا ہے تو ہمیں جاپان،برطانیہ،پورپ کے ہاتھوں میں کشکول کیوں نظر نہیں آتا؟  روس ،چین ،اور تقریبا سارا ہی وسطی ایشیاء ایسے صدارتی نظام کے تحت ہے جس کی تمناء ’’کچھ پاکستانیوں‘‘ کو ہے مگر وہ ایوب خان کا 12سال، ضیاء الحق کا 11سال ،یحی خان اور مشرف کا 13سال پر مشتمل طویل مارشل لاء بھول جاتے ہیں۔

مارشل لاء کے تحت فرد واحد ملکی نظام کا رکھوالا ہوتا ہے، ان خواہشمندوں کو صدارتی نظام کے تحت امریکہ کی 19.485 ٹریلین ڈالر کی معیشت تو نظر آتی ہے مگر اسی امریکی سرحدوں سے جڑے میکسیکو کے صدارتی نظام کے’’ ثمرات‘‘ انہیں نظر نہیں آتے جہاں کے باسی کئی دہائیوں سے ہر روز ریو گرینڈے بارڈر کراس کرنے کا خواب لے کر سوتے ہیں۔

پاکستان کو تجربہ گاہ اور خود کو اس تجربہ گاہ کا آئن اسٹائن سمجھنے والے امریکی سرحد پر موجود کینیڈا کا پارلیمانی نظام کیوں بھول جاتے ہیں جو اسی پارلیمانی نظام کے سائے میں امریکا سے بڑی فلاحی ریاست کے طور پر موجود ہے ۔

صدارتی نظام کے حق میں دلائل دینے والے یہ کیوں نہیں بتاتے کہ زمبابوے، یمن، سوڈان اور تقریباً آدھے افریقہ میں بھی صدارتی نظام ہے مگر ان کی دانست میں خوبیوں سے بھرا اور غلطیوں سے پاک یہ نظام ان مجبوروں پر تنی سیاہ چارد میں کوئی ایک بھی سوراخ کیوں نہ کر سکا؟

ہم سب جانتے ہیں پاکستان میں صدارتی نظام لانے کی چنگاری کہاں سلگ رہی ہے مگر پتے کی بات تو یہ ہے کہ نظام تب غیر متعلق ہو جاتا ہے جب نظام چلانے والے ہی ٹھیک نہ ہوں، جب لیڈر فیصلے پولرائزیشن کی بنیاد پر کریں،لوگوں کو ذمہ داریاں ان کی پگ دیکھ کر دی جائیں اور ایک پوری قوم بس ایک ریو ڑ کی مانند نظر آئے۔

بس صدارتی نظام کے شوقین ذوق و شوق سے یہ تجربہ کریں مگر وہ رابرٹ موگابے کو نہ بھولیں جس نے 27سال اپنے ملک پر صدارت کی، موگابے آیا، چلا گیا مگر زمبابوے آج بھی وہیں کھڑا ہے، گھٹنوں تک مایوسیوں، حسرتوں اور ناکامیوں کی دلدل میں دھنسا ہوا۔ ہم آسٹریلیا، جاپان، برطانیہ اور کینیڈا سے تو سبق نہ سیکھ سکے کم از کم زمبابوے کے رابرٹ موگابے سے ہی عبرت پکڑ لیں۔

Related Posts