شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، کراچی، لاہور، اسلام آباد ہویا پسماندہ علاقے ہر جگہ بنت ہوا ہوس زدہ جنسی درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، پاکستان میں یوں تو جنسی زیادتی کے واقعات تقریباً روز ہی ہوتے ہیں لیکن کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو میڈیا کی زینت بننے کے بعد زبان زدعام ہوجاتے ہیں ، مختاراں مائی، زینب، مروا اور لاہور موٹر وے پر عصمت دری کے واقعات نے پاکستانی معاشرے پر انتہائی بدنما داغ چھوڑے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت چہار سو لاہور سانحہ کیخلاف احتجاج کی صدائیں بلند کی جارہی ہیں لیکن ایسے میں گزشتہ دنوں ایک سوال نظر سے گزرا کہ علماء اور مرد حضرات ان واقعات پر آواز کیوں نہیں آٹھاتے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

پاکستان میں گھٹن زدہ جنسی معاشرہ میں عورت کو محض جنسی استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے، ہمارے معاشرے میں عورتوں کو دیکھ کر اکثر مردوں کو شائد ایک ہی بات سوجھتی ہے کہ اس سے اپنی ہوس پوری کیسے کریں۔

گھروں میں بھی بہنیں بیٹیاں محفوط نہیں ،ہمارے معاشرے کے یہ جنسی ناسورقبر میں دفن مردہ عورت ،اسپتال میں پڑی مریضہ ،برقع پہنے لڑکی ،دارالامان میں رہنے والی ،بس ،اسکول ،آفس بچوں کے ساتھ ماں ،چار ماہ کی بچی ،خواجہ سراء اپنی بہن اور بیٹی ،خاندان کی عورتوں اور بے زبان جانوروں کو بھی اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے ۔

سی سی پی او لاہور نے جو کہا وہ صرف عمر شیخ کا نہیں،  ہمارے پورے منافقانہ معاشرے کا رویہ ہے، یہاں لٹنے والے سے سوال کیا جاتا ہے ،کپڑے کیا پہنے تھے؟، باہر کیوں نکلی تھی؟،کس کے ساتھ نکلی تھی؟،فیملی کہاں تھی ؟،پردہ کیوں نہیں کیا؟لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہاں تو گھر میں محرم کی موجودگی میں  باپ، بھائیوں اور بچوں کے ساتھ عورتوں کی عزتیں تار تار کردی جاتی ہیں۔

بے پردگی اور نامحرم کی عدم موجودگی کے جواز گھڑنے والے قبر میں پڑی مردہ عورت، بلی، گدھی، کتیا، بکری اور 4 ،5 سالہ بچوں اور بچیوں سے زیادتی کی بھی کوئی وجہ بتائیں کیونکہ ہوس زدہ معاشرے میں ہر وقت دماغ بس انہی خیالات میں الجھا رہتا ہے انہیں کوئی غرض نہیں کہ کوئی بچہ ہے یا بوڑھی خاتون انہیں بس ہوس مٹانی ہے ۔

پاکستان میں جنسی جرائم پر نامرد بنانے کی سزا پر بحث کی جارہی ہے لیکن یہ بات بھی واضح رہے کہ جنسی جرائم کے ان واقعات کے حوالے سے اگر طبی ماہرین سے رائے لی جائے تو زیادتی کے واقعات میں جنسی اطمینان کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ محض ایک ذہنی تسکین کا ذریعہ ہے جس میں فعل مفعول کو اذیت دیکر سکون محسوس کرتا ہے ۔

اس لئے اگر آپ پہلے سے بیمار ذہن درندوں کو سزا دیکر معاشرے میں چھوڑ دینگے تو یہ ناسور پھیلتے ہوئے مزید بیماریوں اور برائیوں کو جنم دیگا۔جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کا ماضی کھنگالا جائے تو پتا چلے گا کہ یہ لوگ ماضی میں خود ذہنی، جسمانی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور اب خود پر ہوئے یا دیکھے مظالم کو دہراکر ذہنی تسکین حاصل کرتے ہیں۔

پاکستان میں سزائیں تو پہلے سے موجود ہیں صرف نظام میں اصلاحات کرکے اگر جنسی جرائم کے مجرموں کو بروقت سزائیں دی جائیں تو شائد کچھ سدھار ممکن ہو۔

ملک میں شریعت کے نفاذ کو جنسی جرائم کا حل بتانے والے مدارس میں ہونیوالے جنسی جرائم کی کیا سزا تجویز کرینگے یہ بھی وضاحت فرمادیں  کیونکہ اگرشریعت نافذ ہوگئی تو کیا تمام جرائم ختم ہوجائیں گے۔

مغرب میں شریعت نہیں  ہے لیکن معاشرے میں انصاف قائم ہے، وہاں عورت نیم برہنہ اور بعض نہیں بلکہ کئی مقامات پر برہنہ سمندر کنارے سارا دن اور رات بیٹھ سکتی ہے لیکن کسی کی جرات نہیں کہ اسے ہاتھ لگا دے اور ایسا نہیں کہ وہاں جنسی زیادتی نہیں ہوتی، وہاں بھی ہوتی ہے لیکن وہاں کسی سے زیادتی ہوتو قانون حرکت میں آتا ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔

پاکستان کو اسلامی معاشرہ کہا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ملاوٹ، چوری، ڈکیتی، جنسی زیادتی، بچوں کے ساتھ بدفعلی اور ہر برائی عام ہے اور جس پولیس سے تعزیرات پاکستان کا نفاذ نہیں ہورہا، وہ شریعت کا نفاذ کیسے کرے گی؟ ہم عصمت دری کے بعد چادر اور چار دیواری کا بہانہ تراش کر عورت کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ چادر اور چار دیواری کے نام پر ہمارا معاشرہ اپنی وہ کالک بھی چھپانا چاہتا ہے جس سے خود انسانیت شرما جائے۔

تجھ کو لگتا ہے کہ تن دھونے سے تو پاک ہوا ہے ،،، تجھ پہ واجب ہے ابھی غسل تیرے ذہن کا

پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم این جی اوز بھی وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہیں۔ عصمت دری کے واقعات پر واویلہ بھی ہے اور مجرموں کو سرعام پھانسی کی مخالفت بھی۔

سوال یہ ہے کہ ایسے گھناؤنے جرم کے مرتکب کو اگر آپ انسان نہیں سمجھتے تو انسانی حقوق کا کیا مقصد ہے ؟ اور اگر سمجھتے ہیں تو عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو بھی انسانی فطرت کا ہی تقاضا سمجھ کر خاموش ہوجائیے۔

این جی اوز بھی ایک طرف سے کھیلیں تو شائد اونٹ کسی کروٹ بیٹھ جائے لیکن جہاں تک بات علماء اور مرد حضرات کی ہے تو بقول شاعر ،ہمیں خبر ہے لٹیروں کے سب ٹھکانوں کی۔۔۔شریک ِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے۔۔۔

Related Posts