کسی بھی شخص کے قصور وار ثابت ہونے تک اسے بے گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس شخص کو منصفانہ ٹرائل کا حق دیا جاتا ہے تاہم وفاقی حکومت کی جانب سے مفرور اور مجرموں کی کوریج پر پابندی عائد کرنے کے حالیہ فیصلے نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
وزیراعظم عمران خان سیاسی مخالفین جن پر بدعنوانی کے الزامات ہیں کی میڈیا کوریج پر ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ ماننا ہے کہ ملزمان اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے میڈیا کو استعمال کررہے ہیں اس لئے وزیرقانون کو سزایافتہ اور مفرور افراد کو میڈیا کی زینت بننے سے روکنے کے لیے لائحہ عمل بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
وزیر اعظم کی معاون خصوصی فردوس اعوان کااس حوالے سے کہنا ہے کہ ‘کابینہ اجلاس میں چند وزرا نے ایک ایسے قانون لانے کیے لیے تفصیل سے بات کی کہ وہ لوگ جو سزا یافتہ ہیں جو کرپشن کے کیسز میں مختلف عدالتوں سے سزائیں پانے کے بعد وکٹر کا نشان بناتے ہیں اور خاص کر جو پاکستان کے قانون کو مطلوب ہیں وہ ہمارے میڈیا پر آکر انٹرویوز دیتے ہیں اور بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان کے قوانین کا مذاق اڑاتے ہیں۔
نیا قانون بدعنوانی کے مقدمات اور تحقیقات کا سامنا اپوزیشن کے ارکان کو نشانہ بنائے گاجن میں خاص طور پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، شہباز شریف ، ان کے بیٹے حمزہ شہباز ، سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ اور متعدد دیگر افراد شامل ہیں جبکہ ان میں سے کسی کو بھی ابھی تک کسی عدالت نے قصوروار قرارنہیں دیا اوران لوگوں کی میڈیا کوریج پر پابندی ایک منفی اقدام ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ کریمنل کیسز میں میڈیا رپورٹنگ میں اکثر ملزمان خود کو بیگناہ ثابت کرنے کی کوشش کرکے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور تحقیقات اداروں پر تعصب برتنے کے الزامات لگاکر خود کو پارسا بناکر پیش کرتے ہیں اور یہ تاثر بھی عام ہے کہ ملزمان کو گرفتاری کے بعد عدالتوں میں پیش کرنے سے پہلے میڈیا پر پیش کردیا جاتا ہے جس سے مقدمات میں کئی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔
حکومت کو ملزمان کو عدالتوں میں پیش کرنے کے حوالے سے سخت قواعد اپنانے چاہئیں ، سیاست دانوں اوردیگر ملزمان کے ریمانڈ میں توسیع یا کیس کی سماعت کیلئے عدالتوں میں پیشی کے وقت میڈیاسے بات چیت محدود کی جاسکتی ہے لیکن مکمل پابندی کسی صورت مناسب نہیں۔
صحافیوں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جانا چاہیے کہ محض سنسنی پھیلانے کیلئے چٹ پٹی خبر کے بجائے اطلاعات پہنچانے کا ذریعہ بنیں اور چاہے سیاستدان ہوں یا کوئی عام شخص صحافی خود کو کسی بھی وابستگی سے قطع نظر صرف حقائق پر توجہ دیں اور خود کو غیر جانبدار رکھیں۔
حکومت کی جانب سے میڈیا کوریج پر پابندی آزادی صحافت پر پابندی تصور ہوگی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس اقدام کو تعصب قرار دیتے ہوئے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ کوئی بھی جمہوری معاشرہ آزاد میڈیا کے بغیر کام کرسکتا ہے نہ سیاسی انتقام عوامی پالیسی کا حصہ بن سکتاہے۔