صدر پاکستان 3 برس میں واحد وفاقی یونیورسٹی کو مستقل وائس چانسلر نہ دے سکے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صدر پاکستان 3 برس میں واحد وفاقی یونیورسٹی کو مستقل وائس چانسلر نہ دے سکے
صدر پاکستان 3 برس میں واحد وفاقی یونیورسٹی کو مستقل وائس چانسلر نہ دے سکے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی: 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار بن گیا جس کی وجہ سے وفاقی تعلیمی اداروں کی چانسلر شپ بدستور صدر پاکستان کے پاس جب کہ صوبائی تعلیمی اداروں کی اتھارٹی وزیر اعلی سندھ کے پاس آگئی ہے۔ جب کہ سندھ حکومت نے جامعات اور امتحانی بورڈوں کے لئے باقاعدہ محکمہ بورڈ اینڈ جامعات بنا دیا ہے، دیگر تین صوبوں کی جانب سے تعلیم کو کئی حصوں میں تقسیم کرنے کے بجائے محکمہ تعلیم کے ہی ماتحت رکھا گیا ہے۔

پاکستان کی قومی زبان کے نام پر قائم ہونے والی واحد یونیورسٹی جامعہ اردو شروع سے اب تک مختلف مسائل کا شکار رہی ہے تاہم موجودہ صدر پاکستان کے آنے کے بعد مسائل میں کمی کی توقع کی جارہی تھی تاہم حیران کن طور پر مسائل میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ جس کی وجہ سے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی بحثیت چانسلر جامعہ اردوکو تین برس میں کوئی بھی مستقل وائس چانسلر دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔

جامعہ اردو اس وقت سخت انتظامی بحران کا شکار ہے، جس کی وجہ سے سرچ کمیٹی کی جانب سے فائنل کردہ تین امیدواروں میں سے صدر پاکستان کا منتخب کردہ وائس چانسلر کے امیدوار ڈاکٹر شاہد قریشی نے وی سی شپ لینے سے معذرت کر لی ہے۔ جس کے بعد ہیجان انگیزی مزید بڑھ گئی ہے، بقیہ دو امیدواروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جانا ہے تاہم صدر پاکستان کی جانب سے دوسرے یا تیسرے نمبر کے امیدوار میں سے وائس چانسلر کیلئے انتخاب کرنے میں ایوان صدر ناکام ہے ۔

یونیورسٹی میں نگران کی حیثیت سے وائس چانسلر کے اختیارات استعمال کرنے والے ڈپٹی چیئر سینیٹ عبدالقیوم خلیل کو بھی ایوان صدر کی جانب سے نگران کے طور پر کوئی نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا جاسکا ہے۔ جب کہ ڈپٹی چیئر سینیٹ نے از خود ہی سینیٹ کی ایک سہ رکنی ایمرجنسی کمیٹی قائم کرکے خود کا انتخاب بطور نگران کر لیا ہے جب کہ سہ رکنی کمیٹی میں سے ہی کسی کا نگران بن جانا مذید معاملے کو متنازعہ بنا رہا ہے۔

ادھر انجمن اساتذہ نے موقف اختیار کیا ہے کہ یونیورسٹی کے نگران یا قائم مقام وائس چانسلر کا اختیار صرف کسی پروفیسر کو ہی دیا جاسکتا ہے۔ سینیٹ میں ماہرین تعلیم یا براہ راست تعلیم و تعلم سے وابستہ شخص کو نگران بنایا جا سکتا ہے تاہم کسی کاروباری اور سماجی شخصیت کو نگران بنانے سے تعلیمی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اساتذہ کے مطابق غیر علمی شخصیت یونیورسٹی کی نگران نہیں ہوسکتی۔

سینیٹ کے رولز کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے سہہ رکنی ایمرجنسی کمیٹی سابق وائس چانسلر ڈاکٹر عارف زبیر نے بھی قائم کی تھی جس کو بعد ازاں سینیٹ کے اجلاس میں ممبران سینیٹ نے قبول کرنے سے انکار کردیا ہے جس کی وجہ سے ایمرجنسی کمیٹی کے تمام اقدامات پر قانونی پیچیدگیاں کھڑی کر گئی تھیں۔

حیرت انگیز طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تحت آنےوالے تمام جامعات میں تعینات ہونے والے وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کے لئے کمزور ترین سرچ کمیٹی و رولز جامعہ اردو کی سرچ کمیٹی برائے مستقل وائس چانسلر کیلئے بنائے گئے تھے۔ جامعہ اردو کی سینڈیکیٹ کی جانب سے قائم کردہسرچ کمیٹی میں لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر کو شامل کرنے پر چانسلر کی خاموشی کی وجہ سے جامعہ کو مستقل وائس چانسلر نہیں مل سکا ہے۔

واضح رہے کہ جامعہ کی موجودہ صورتحال میں سینیٹ کا اجلاس ناگزیر قرار دیا جارہا ہے ،سینیٹ کے اجلاس کے بعد جامعہ میں کسی بھی سینئر پروفیسر کو بطور نگران بنائے جانے سے لیکر ایوان صدر کوسرچ کمیٹی کے فائنل کردہ دیگر دوسرے یا تیسر ے امیدوا ر کو بطور وائس چانسلرانتخاب کرنے کیلئے تجویذ پیش کرنے تک کا معاملہ زیر بحث آسکتا ہے۔ اس حوالے سے نگران جامعہ اردو عبدالقیوم خلیل کا کہنا ہے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ سینیٹ کا اجلاس ہو،اور اس حوالے سے میں ایک دو لوگوں سے مشورہ کروں گا اور اک دو روز میںچانسلر جامعہ اردو ڈاکٹر عارف علوی کا خط لکھوں گا کہ وہ اجازت دیں تاکہ سینیٹ کا اجلاس منعقد کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں : کراچی پریس کلب کے وفد کا ڈائریکٹر جنرل LDA کےساتھ ہاکس بے صحافی سوسائٹی کا دورہ

Related Posts