آج سے 2 روز قبل سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے مبینہ دھاندلی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے عہدے سے نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش بھی کیا اور کہا کہ مجھے سزائے موت دی جائے۔
قومی سطح پر یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد واقعہ تھا جس نے سوشل میڈیا صارفین سمیت ہر شہری کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی، تاہم سابق کمشنر نے یہ بھی کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو اور چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی مستعفی ہوجانا چاہئے۔
دوسری جانب نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر نے ٹی وی پر یہ بیان دیا کہ لیاقت چٹھہ کی ذہنی حالت درست نہیں لگتی جس پر ٹی وی اینکر نے انہیں آڑے ہاتھوں لے لیا تاہم عامر میر نے ٹی وی اینکر کے خلاف ٹی وی پر ناشائستہ زبان استعمال کی۔
دلچسپ طور پر عامر میر کی جانب سے ناشائستہ زبان کے استعمال کی ویڈیو سوشل میڈیا پر تو ضرور آئی تاہم پاکستانی میڈیا پر یہ ویڈیو نہ تو اس شدومد سے سامنے لائی گئی اور نہ ہی عوامی توجہ کا مرکز بن سکی کیونکہ عامر میر بااثر صحافی حامد میر کے بھائی ہیں۔
بعد ازاں گزشتہ روز یہ واقعہ بھی سامنے آیا کہ لیاقت علی چٹھہ کے پی اے اشفاق تارڑ کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور ان کے برادرِ نسبتی کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے چھاپہ مار کارروائی کی تصدیق بھی کی۔ اشفاق تارڑ محکمۂ معدنیات میں بھی ملازمت کر رہے ہیں۔
اشفاق تارڑ کی اہلیہ کے بیان کے مطابق پنجاب پولیس نے بیرونی دروازے کے تالے توڑے اور گھر میں داخل ہو کر تلاشی لی۔ پولیس اہلکاروں نے گھر سے ملنے والے تمام کاغذات بھی اپنے قبضے میں کیے اور گھر والوں کے موبائل فونز بھی قبضے میں لے لیے۔
موجودہ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی زیر قیادت پنجاب کی نگران حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے، اس پر پی ٹی آئی اور صحافیوں کو دبانے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور پنجاب پولیس کے سیاسی کارکنان پر ظلم و جبر کے الزامات بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔
اتوار کے روز ہی ن لیگی رہنما ملک احمد خان نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں نے 9 مئی سے کوئی سبق نہیں سیکھا، جس قسم کا پراپیگنڈا ہورہا ہے، ڈر ہے کہ ایک اور 9 مئی نہ ہوجائے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے باضابطہ کمپین چلائی جارہی ہے۔
ملک احمد خان نے کہا کہ پراپیگنڈا بے وجہ نہیں ہے، 9مئی کو بھی افواج کے خلاف نفرت انگیز مہم چلی، مئی سے قبل پی ٹی آئی کے خلاف وارنٹ آئے، وارنٹ لے کر رہائش گاہ جانے پر جتھے بٹھا دئیے گئے تھے۔ پی ٹی آئی کی تاریخ ہے کہ وہ انتخابی نتائج نہیں مانتی۔
ن لیگ کے دیگر رہنماؤں نے بھی پریس کانفرنس کے دوران پی ٹی آئی پر الزامات لگائے اور یہ الزامات کا سلسلہ یکطرفہ نہیں ہے۔ تحریکِ انصاف کا سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ملک بھر میں جو انتخابات ہوئے وہ دھاندلی زدہ ہیں اور ان کا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا ہے۔
جب لیاقت چٹھہ نے استعفیٰ دیا تو پی ٹی آئی رہنما گوہر علی خان سمیت دیگر نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کو مستعفی ہوجانا چاہئے۔ ہم تو پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور ہمارے امیدواروں کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔
ضروری ہے کہ لیاقت علی چٹھہ کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائیں، بصورتِ دیگر ایک دوسرے پر الزام تراشی اور جوابی الزام تراشی اور پھر جواب الجواب پر مبنی الزام تراشی کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا جو کہیں تھمنے کا نام نہیں لے گا۔
بے شک الزام تراشی بھی سیاست کا ایک اہم حصہ ہے تاہم صرف اپنے مفادات کے تحفط کیلئے ملک کو نت نئے سیاسی بحرانوں اور مشکلات میں دھکیلنا کہاں کی عقلمندی ہے جبکہ ملک کی معاشی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے، اس پر سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔