مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 سیاسی موسم ایک بار پھر تبدیل ہو رہا ہے اور اس تبدیلی کے آثار انہی اہم ترین سطحوں پر ظاہر ہو رہے ہیں جہاں سے اس اظہار کی ہمیشہ ابتدا ہوتی ہے۔

حالیہ موسمی تبدیلی کی جانب آنے سے قبل یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ موسمی تغیر ظاہر کیسے ہوتا ہے اور یہ مطلوبہ اہداف حاصل کیسے کرتا ہے ؟۔

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سیاسی موسم میں تغیر قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہوتا ہے چنانچہ اس تغیر کا سارا دار و مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ سیاسی نظام کے مالکان کا موڈ کب اس تغیر پر آمادہ ہوتا ہے۔

ہمارے سیاستدان جد و جہد، قربانی اور رنگ لانے جیسی شاعرانہ باتیں جتنی بھی کرلیں مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ کبھی اپنے دم پر کچھ نہیں کر پاتے اس کی سب سے واضح مثال مولانا فضل الرحمن کا لانگ مارچ اور اس کے بعد پی ڈی ایم کی تحریک کا حال ہے۔

ان دونوں سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے سیاستدانوں نے خود سے سیاسی موسم بدلنے کی ہی کوششیں کی تھیں مگر ایسا ہو نہ سکا۔ کیوں ؟ کیونکہ مالکان کو تغیر قبول نہ تھا۔ چنانچہ چند پھیکی بڑھکیں مار کر رفتہ رفتہ سب گھر بیٹھ گئے۔

یہ خوش فہمی اس ناچیز کو بھی لاحق ہوئی تھی کہ ہماری سیاسی تاریخ میں پہلی بار پنجاب جاگ گیا ہے لہٰذا پہلی ہی بار یہ بھی ہوگا کہ تبدیلی مالکان کی مرضی کے برخلاف ہی نہیں بلکہ مالکان کے ہی خلاف آئے گی۔

الحمدللہ اب ایسی کوئی خوش فہمی نہیں اور انا للہ کہ اس بار بھی سیاسی موسم کا تغیر اسی طرح رونما ہو رہا ہے جس طرح ہمیشہ رونما ہوتا آیا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ پچھلی بار لندن میں عمران خان اور طاہر القادری سے ملاقاتیں ہوئیں تھیں اور اس بار ایک مریض سیاستدان سے۔

مالکان جب بھی تبدیلی کا فیصلہ کرلیں وہ سب سے پہلے اس سیاسی فریق سے رابطہ کرتے ہیں جو زیر عتاب ہوتا ہے اور بات بہت سادہ و سمپل کرتے ہیں۔

مثلاً کچھ یوں، ہمیں موجودہ حکومت سے جو امیدیں تھیں وہ خاک میں مل گئیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ آپ ہی ٹھیک تھے مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو لایا جائے تو آپ نے تو انتقامی کار روائی شروع کردینی ہے۔

یوں معتوب سیاسی فریق ہر طرح سے یقین دہانی کرا دیتا ہے کہ اس کے دل میں کوئی انتقامی جذبات نہیں ہیں۔

پلیٹ لیٹس کی کمی دکھا کر بھی باور کرایا جاسکتا ہے کہ بھلا اتنے سے پلیٹ لیٹس کے ساتھ بھی کوئی انتقام لیا جاسکتا ہے ؟۔ جب یہ یقین پوری طرح حاصل ہوجائے تو پھر کھیل دوسرے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں سب سے اہم کردار میڈیا کا ہوتا ہے۔

اس مرحلے میں کچھ نامی گرامی باخبر صحافیوں سے یہ خبر بریک کروادی جاتی ہے کہ “تبدیلی آرہی ہے” ہرچند کے وہ باور یہی کراتے ہیں کہ وہ کوئی بھانڈہ پھوڑ رہے ہیں مگر وہ بھانڈہ تو کیا غبارہ بھی نہیں پھوڑ رہے ہوتے۔

انہیں جیسا کہا گیا ہوتا ہے ویسا ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی اپنے حصے کا کٹھ پتلی رول۔ جوں ہی یہ خبر بریک ہوتی ہے، قلم کی حرمت کی قسمیں اٹھانے والے کچھ دیگر نامی گرامی ہستیوں کو اشارہ ہوجاتا ہے کہ وہ بریک ہونے والی اس خبر کو ہوا دیں۔ چنانچہ نہ صرف اس پر کالم آنے شروع ہوجاتے ہیں بلکہ ٹاک شوز میں بیٹھ کر ان میں سے ایک فرماتے ہیں

کیوں عارف صاحب آپ کو کیا لگتا ہے بھٹی صاحب والی خبر میں کوئی صداقت ہے ؟ ویسے صحافی تو وہ بہت بڑے ہیں، خبریں ان کی ٹھیک ہی نکلتی ہیں
اور عارف صاحب ارشاد کرتے ہیں۔
ملک صاحب خبر میرے پاس بھی یہی ہے۔ بس میں مزید تحقیق کے چکر میں سب سے پہلے بریک نہ کر سکا۔ ورنہ تبدیلی تو اب نوشتہ دیوار ہے۔

یہ سب پڑھ، سن اور دیکھ کر عام شہری فوراً سوچتا ہے کہ اب جلدی سے یہ پتہ چل جائے کہ جس جماعت کے اقتدار میں آنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں اس کی قیادت کیا کہتی ہے ؟ کیا وہ اس کی تصدیق کرتی ہے؟ چنانچہ اگلے مرحلے میں اس جماعت کے صف دوم کے کسی رہنماء کو لائن پر لے لیا جاتا ہے اور یہی سوال اس کے آگے رکھدیا جاتا ہے کہ کیا واقعی ان کے معاملات طے پاچکے اور تبدیلی آرہی ہے ؟ وہ موصوف تردید کر دیتے ہیں اور بس چلے تو ماں کی قسم اٹھا کر کہہ دیں کہ ان کی جماعت کسی پس پردہ سمجھوتے پر یقین نہیں رکھتی۔ مگر یہ تردید بھی پری پلان ہوتی ہے۔

ابھی ناظرین اس تردید پر شش و پنج میں ہی ہوتے ہیں کہ اگلے روز اسی وقت ایک اور رہنماء ٹی وی پر اسی گزشتہ روز والے سوال کے جواب میں کچھ یوں اظہار خیال کر دیتا ہے۔

تبدیلی کا کیا ہے جی ! وہ تو کسی بھی وقت آسکتی ہے۔ سیاستدان بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں کرتا۔ اور بات چیت تبدیلی کے لئے ہی ہوتی ہے”۔

لیجئے صاحب !اب باری ہے تیسرے مرحلے یعنی سوشل میڈیا کی۔ اب وہاں شروع ہوگی دونوں سیاسی فریقوں کی دھینگا مشتی۔ کوئی کہے گا تبدیلی آرہی ہے تو کوئی کہے گا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اور اس پورے تماشے کو سگار کے کش بھر بھر کر بغور دیکھتے مالکان انتظار کرتے ہیں اس لمحے کا جب ٹمپریچر اس حد تک پہنچ جائے جو فیصلہ کن اقدامات کے لئے مطلوب ہیں۔

اس دوران اگر نظر آئے کہ کچھ ابہام ابھی باقی ہے جس سے ٹمپریچر بڑھنے کی رفتار سلو ہے تو پھر ملک کے کچھ نامی گرامی نجومیوں کو زحمت دیدی جاتی ہے۔ ان کے انٹرویوز اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن جاتے ہیں، جن میں وہ ستاروں کی چالوں سے یہ واضح کرتے ہیں کہ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔ ایسے مواقع پر حکمران کے زائچے کے کسی اہم گھر میں زحل کو تو لازما ہی داخل کیا جاتا ہے مگر بات میں وزن پیدا کرنے لئے دو چار مزید ہڈ حرام قسم کے ستارے بھی پہنچا دیئے جاتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ زحل کو مطلوبہ گھر میں داخل کرنے کے لئے یہ واردات تک کرلی جاتی ہے کہ مثلاً میاں نواز شریف کی تاریخ پیدائش کے مطابق ان کے زائچے میں زحل اس گھر میں نہیں ہوسکتا جہاں اس کا ہونا مطلوب ہے تو نجومی دعویٰ کردیتا ہے کہ سیاستدان اپنی تاریخ پیدائش ہمیشہ غلط مشہور کراتے ہیں لیکن مجھے میاں صاحب کی اصل تاریخ پیدائش معلوم ہے اور اسی کے مطابق زحل ان کے فلاں گھر میں موجود ہے۔ اور کوئی نہیں پوچھتا کہ حضور ! آپ کو اصل تاریخ پیدائش میاں صاحب کی دائی نے بتائی ہے ؟۔

اب ماحول پوری طرح تیار ہے۔ سو چوتھے مرحلے میں عدلیہ حرکت میں آتی ہے اور یوں شروع ہوجاتا ہے ایسے فیصلے آنے کا سلسلہ جس سے ناراض سیاسی جماعت کے ورکرز کے چہروں پر خوشی کا نور پھیل جائے اور وہ ناچ ناچ کر سب کو بتا سکیں کہ قربانیاں رنگ لا رہی ہیں، انصاف کا بول بالا ہورہا ہے۔ یوں جس عدلیہ کو پانچ سال گالیاں دی ہوتی ہیں اب اسی کے صادق و امین ہونے کا اعتراف کرلیا جاتا ہے۔ مگر بدلتا کچھ نہیں۔

فرق بس اتنا ہی پڑتا ہے کہ اب عدلیہ کی تعریف اور تنقیص کرنے والے فریق ہی بدلیں گے۔ مثلاً پچھلے پانچ سال نجم سیٹھی کا موقف یہ تھا کہ عدلیہ انصاف کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ مگر اب جو موسم شروع ہورہا ہے اس میں وہ آپ کو صبح شام عدلیہ کی تعریفیں کرتے ملیں گے جبکہ ان کی جگہ اب اگلے چند سال عدلیہ کا مرثیہ وہ لکھیں گے جو پچھلے پانچ سالوں کے دوران اس کے صادق و امین ہونے کی گواہی دیتے آئے ہیں۔ اس پورے ماحول میں اگر کسی گستاخ نے مالکان کے ترجمان سے یہ پوچھ لیا۔

کیا ڈیل فائنل ہوگئی ہے ؟۔

تو پھر آپ بس تیور دیکھتے جایئے تردیدکے۔ آپ کو تیوروں سے ہی سبق سکھا دیا جائے گا کہ مالکان کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اب اگر آپ بادام بھی کھاتے ہوں تو سمجھ جائیں گے کہ مالکان نے تو یہی کہنا ہے۔ لیکن اگر صرف دال روٹی کھاتے ہوں تو سوشل میڈیا پر آپ نے فرمانا ہے۔
انہوں نے تردید کردی ہے۔ کوئی تبدیلی نہیں آرہی، سب فضول باتیں ہیں”۔

سو قاری ذی وقار ! نومبر کے بعد سے تین مرحلے تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں اور بخوبی جانتے ہی ہوں گے کہ اس وقت ہم چوتھے یعنی عدلیہ کے تاریخی فیصلوں والے مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ بس ذرا چند مزید تاریخی فیصلے آ لینے دیجئے پھر پانچواں اور چھٹا مرحلہ آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔

پانچواں مرحلہ اس حکمران کا رخصت ہونا ہوتا ہے جس کے کسی نامعلوم گھر میں زحل گھس چکا ہوتا ہے جبکہ چھٹا مرحلہ اس ہستی کا حلف اٹھانا ہوتا ہے جس کے بارہ کے بارہ گھروں میں مشتری کی برکتیں پھیل گئی ہوتی ہیں۔ بس اتنا ذہن میں رکھئے مشتری کو شریف خاندان کے پہلے نہیں بلکہ دوسرے گھر میں داخل کرانے کی کوششیں چل رہی ہیں۔

مری میں برف اسی لئے نہ ہٹائی جاسکی تھی کہ بلڈوزر سیاسی برف ہٹا کر مشتری کے لئے راستہ صاف کرنے میں مصروف تھے۔ سیاسی برف عام طور پر برف پگھلائی جاتی ہے مگر اس بار بعض نامعلوم وجوہات کے تحت اسے بلڈوزروں کی مدد سے ہٹانا ضروری سمجھا گیا۔

Related Posts