خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے قصہ خوانی بازار کی جامع مسجد میں نماز جمعہ کے دوران خودکش دھماکے میں 60 سے زائد قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے بیشتر کی حالت تشویشناک ہے اورمزید اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
خودکش بمبار نے مسجد میں داخل ہونے سے قبل پولیس اہلکاروں اور دیگر نمازیوں پر فائرنگ کی،بعدازاں خود کو منبر کےسامنے اڑایا ،دھماکے کے بعد مسجد کے ہال میں ہر طرف انسانی اعضاء پھیل گئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق خودکش حملہ آور دو سہولت کاروں کے ساتھ رکشے میں آیا تھا، پولیس کو موصول ہونے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق خودکش حملہ آور2 سہولت کاروں کے ساتھ نمک منڈی سے آئے تھے۔
خودکش حملہ آور رکشہ میں جائے وقوعہ پر پہنچا، حملہ آور کے ہمراہ 2 ہینڈلرز بھی تھے ، خودکش حملہ آور کوہاٹی گیٹ کی سمت سے کوچہ رسالدار کی جانب روانہ ہواتھا، ایک ہینڈلر سڑک پر ہی رک گیا جبکہ دوسراحملہ آور کے ہمراہ گلی میں داخل ہوا اور مسجد کی جانب بڑھےساتھی ہینڈلر نے سفید لباس پہن رکھا تھا اورچہرہ چادر سے چھپایا ہوا تھا۔ اس طرح خودکش حملہ آور نے سیاہ لباس پہن رکھا تھا اور جیکٹ پہن رکھی تھی ایک ہینڈلرجو باریش تھا، نے واسکٹ اور چادر کندھے پر رکھی تھی۔
خیبر پختونخوا پولیس سر برا ہ معظم جاہ انصاری نے کہاہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواہے لیکن کچھ دہشت گردابھی بھی باقی ہیں،ہم حالت جنگ میں ہیں،وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم 24 سال بعد پاکستان آئی ہے، ملک دشمن قوتوں کو آسٹریلوی ٹیم کا دورہ پاکستان ہضم نہیں ہوا، خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دھماکے سے متعلق کوئی تھریٹ الرٹ جاری نہیں ہوا تھا‘دھماکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کا حصہ ہے، ملک دشمن خلفشار چاہتے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نےکہا کہ دہشت گرد کہاں سے آئےاس حوالے سے تمام معلومات اب ہمیں میسرہیں چنانچہ پوری قوت سے ان کے تعاقب میں جارہے ہیں ۔ خود کش دھماکے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے وزیر داخلہ شیخ رشید کی اہم ملاقات ہوئی ،وزیرداخلہ نے پشاور واقعے سے متعلق وزیراعظم کو بریفنگ دی۔ذرائع کے مطابق وزیرداخلہ نے پاکستان کے دورے پر موجود آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کو دی جانےوالی سیکورٹی سے متعلق بھی بریفنگ دی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان طویل عرصہ سے حالت جنگ میں ہے اور پاکستان کی مسلح افواج اور عوام کی ناقابل فراموش قربانیوں اور اربوں روپے کے نقصان کے باوجود پاکستان کے دہشت گردی کیخلاف عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔
یہ بھی درست ہے کہ خودکش حملے کو روکنا نسبتاً مشکل کام ہے لیکن اس وقت تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی معاملات انتشار کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر کشیدگی کے باوجود وزیراعظم، وزیرخارجہ اور وزیرداخلہ اپنے دفتری اور ملکی معاملات سے قطع نظر سیاست کرتے اور اپنی حکومت کے دفاع پر مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
امریکا کو چھوڑ کر روس اور چین کے ساتھ کھڑا ہونے کی وجہ سے پاکستان اس وقت پوری دنیا کی نظروں میں کھٹک رہا ہے ، ملک میں امن کی بحالی دشمن قوتوں کو کسی صورت برداشت نہیں ۔ملک میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔24 سال بعد آسٹریلوی ٹیم کی پاکستان آمد بھی دشمنوں کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے اور اس دورہ کو کسی بھی طرح ناکام بناکر پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے دشمن کوئی بھی چال چل سکتا ہے۔
دہشت گردوں نے جمعہ کو دانستہ ایک مخصوص مسلک کی مسجد کو نشانہ بنایا اور سوشل میڈیا پر دوسرے مسلک کو مورد الزام ٹھہرا کر ملک میں گروہی اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی قوتوں یکجان ہوکر ملک کے مفاد کی خاطر ایک ہوکر بیٹھیں اور دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام بنایا جائے۔