متحدہ عرب امارات میں پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی نے پاکستانیوں کو درپیش ویزا مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے 31 اکتوبر کو اختتام کے باوجود صورتحال میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔
یہ بات انہوں نےایک تقریب کے دوران کہی، جہاں یہ انکشاف ہوا کہ کئی پاکستانیوں، جن میں اسٹارٹ اپ مالکان اور آئی ٹی پروفیشنلز شامل ہیں،ان کو ویزا مسترد ہونے کا سامنا ہے۔
اس مسئلے نے امارات کی بدلتی ہوئی ملازمت کی ضروریات پر توجہ مبذول کرائی ہے، جو اب روایتی مزدور طبقے کے بجائے ہنر مند اور ماہر افراد کو ترجیح دے رہی ہیں۔ یہ وہی مزدور طبقہ تھا جس نے ماضی میں ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
سفیر فیصل نیاز ترمذی نے تسلیم کیا کہ پاکستانی کارکنوں نے ہمیشہ امارات کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالا ہے لیکن اب مارکیٹ کو مزید ماہر اور خصوصی ہنر کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پاکستانیوں کو کثیرالثقافتی ماحول میں کام کرنے کے لیے تیار کرنے پر زور دیتے ہوئے جذباتی ذہانت اور تنظیمی صلاحیتوں کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔
یہ صورتحال ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امارات کے حکام نے ماضی میں پاکستانیوں کے لیے کسی ویزا پابندی سے انکار کیا تھا۔
اگست میں اماراتی قونصل جنرل نے کراچی میں وضاحت کی تھی کہ سندھ کے شہریوں کے لیے کوئی مخصوص ویزا پابندی نہیں ہے اور تمام سہولیات پاکستانی کاروباری افراد، کارکنوں اور علاج کے متلاشیوں کے لیے دستیاب ہیں۔
امارات کی طرف سے سرکاری وضاحتوں کے باوجود پاکستانیوں کے ویزے مسترد ہونے کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امارات میں داخلے کے خواہشمند پاکستانیوں کو اب سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔
پاکستان کے بیورو آف ایمیگریشن کے حالیہ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ امارات میں رجسٹرڈ پاکستانی کارکنوں کی تعداد میں بڑی کمی آئی ہے جو 2023 میں 229000 سے کم ہو کر 2024 میں 60000 سے بھی نیچے آ گئی ہے۔