ورلڈکپ کا سیمی فائنل، پاکستان کی کن کمزوریوں سے آسٹریلیا فائدہ اٹھاسکتا ہے ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

pakistan australia semi final

پاکستان اور آسٹریلیا 11 نومبر کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں مدمقابل ہونگے، پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان کرکٹ ٹیم کسی میگا ایونٹ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے اگلے مرحلے میں پہنچی ہے ورنہ ماضی کے تمام میگا ایونٹس میں پاکستان کرکٹ ٹیم ہمیشہ اگر مگر اور کئی مشکلات کے بعد اگلے مرحلے میں جاتی ہے لیکن اس ایونٹ میں پہلی بار پاکستان ٹیم فیورٹ کے طور پر شریک ہوئی اور ثابت بھی کیا کہ ٹیم پاکستان اس ایونٹ میں سب سے فیورٹ ہے۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ
متحدہ عرب امارات میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں 12 ٹیمیں شریک ہوئیں جن میں پاکستان، بھارت، انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سری لنکا، بنگلہ دیش، اسکاٹ لینڈ، نمیبیا، ویسٹ انڈیز ، جنوبی افریقہ اور افغانستان کی ٹیمیں شریک تھیں تاہم اس ایونٹ میں پاکستان ناقابل شکست رہی جبکہ انگلینڈ، آسٹریلیااور نیوزی لینڈ نے بھی اگلے مرحلے تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ میزبان بھارت کی ٹیم پاکستان اور نیوزی لینڈ سے شکست کھانے کے بعد ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی ہے۔

پاکستان کی کارکردگی
پاکستان کرکٹ ٹیم نے ایونٹ میں سب سے پہلا میچ ہی بھارت کے ساتھ کھیلا جس میں قومی کرکٹ ٹیم نے یکطرفہ مقابلے کے بعد روایتی حریف بھارت کو عبرتناک شکست دی اور اس کے بعد کیویز کو بھی یکطرفہ طور پر ہرایا اور افغانستان، نمیبیا اور اسکاٹ لینڈ کو بھی باآسانی شکست دی۔

قومی کرکٹ ٹیم کی فتوحات میں ماضی کے برعکس اس بار بیٹنگ لائن نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ پانچ میچوں میں دو باؤلر اور 3 بلے باز مردمیدان قرار پائے اور خوبصورت بات تو یہ ہے کہ پانچوں مین آف دی میچ کے ایوارڈز الگ الگ کھلاڑیوں کو ملے جس کا مطلب یہ ہے کہ پوری ٹیم یکجان ہوکر کھیل رہی ہے۔

بیٹنگ اور باؤلنگ
قومی کرکٹ ٹیم اس ایونٹ میں ایک یونٹ بن کر سامنے آئی جبکہ دیگر کئی ٹیمیں بکھری بکھری نظر آئیں۔ قومی ٹیم کے گیند بازوں نے جہاں چھوٹا ٹارگٹ سیٹ کروایا وہیں بلے بازوں نے بہترین حکمت عملی سے ہدف کو عبور کرکے جیت کو یقینی بنایا اور ٹیم کو سیمی فائنل مرحلے میں پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

ٹیم میں موجود خامیاں 
قومی ٹیم کی بیٹنگ کی بات کی جائے تو اس ایونٹ میں اب تک پاکستانی بلے بازوں نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے لیکن اگر پاور پلے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان پاور پلے میں سب سے کم رنز بنانے والی ٹیموں میں سے ایک ہے جس کا رن اوسط 35 رنز ہے۔

اگر آپ کوپہلے بیٹنگ کرتے ہوئے کسی بڑی ٹیم کیخلاف ہدف سیٹ کرنا ہے تو آپ کو پہلے پاور پلے کے 6 اوورز میں کم سے کم50 سے 60 رنز بنانا ضروری ہے۔ چھوٹی ٹیموں کیخلاف توابتداء میں سست کھیل کر آخری اوورز میں تیز کھیل کر زیادہ اسکور بنایاجاسکتا ہے لیکن بڑی ٹیمیں آپ کو واپسی کا موقع نہیں دیتیں اور یہیں آپ میچ میں فتح سے دور ہوجاتے ہیں۔

آسٹریلیا سے مقابلہ
سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے ٹاکرے کی بات کی جائے تو ان کی فاسٹ باؤلنگ اس ایونٹ میں بھی بہترین فارم میں نظر آرہی ہے۔ مچل اسٹارک، جوش ہیزل ووڈ، پیٹ کمنز تینوں ایسے باؤلر ہیں جو تن تنہا میچ کا پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اگر کینگرزو کی بیٹنگ کا جائزہ لیا جائے تو ڈیوڈ وارنر، ایرون فنچ ، اسٹیون اسمتھ اور مچل مارش میں سے کوئی بھی بلے باز کسی بھی گیند باز کو باآسانی کھیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ آل راؤنڈ گلین میکسول جیسا آل راؤنڈ آسٹریلوی ٹیم کا ایک اہم ہتھیار ہے۔

پاکستان کو کیا کرنا چاہیے
پاکستان ٹیم کو آسٹریلیا کیخلاف اہم میچ میں اگر ٹاس جیتیں تو پہلے فیلڈنگ کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ جلد وکٹیں لے کر آسٹریلیا کو کم ہدف تک محدود رکھا جائے ایسی صورت میں پاکستان کامیابی کی طرف جاسکتا ہے اور کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کینگروز کو 140 سے 150 تک محدود رکھیں۔

 اگر پہلے بیٹنگ کرنا پڑے تو پاور پلے میں تیز کھیل کر پہلے پاور پلے میں کم سے کم 50اور 10 اوورز میں 80 رنز جبکہ کم سے کم ہدف 170 ہونا چاہیے تب ہی ہم آسٹریلیا جیسے سخت حریف کو ناک آؤٹ مرحلے میں شکست دینے میں کامیاب ہوپائینگے۔

Related Posts