اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کیلئے نمبرز پورے کرنے کے دعوئوں کے بعد وزیراعظم عمران خان کی اقتدار سے علیحدگی کا امکان بڑھ گیا ہے اور ممکن ہے کہ کل ہونیوالی ووٹنگ میں عمران خان ناکامی کی صورت میں اقتدار چھوڑ دیں جبکہ یہ خدشات بھی ہیں کہ کیا موجودہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی یا نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا ماننا ہے کہ اگر وہ تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو قبل از وقت انتخابات بہترین آپشن ہیں۔ دوسری جانب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی اور انتخابات کے انعقاد سے قبل ’اصلاحات‘ کی تجویز دے رہی ہے۔
وزیراعظم کو یقین ہے کہ پی ٹی آئی اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے پاس اگلے انتخابات کا مینڈیٹ ہوگا؟۔ بادی النظر میں موجودہ حکومت کا بھی اپنے پیشروؤں جیسا ہی حال ہوتا نظر آرہا ہے جنہیں یا تو غیر جمہوری طریقے سے معزول کیا گیا یا استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا۔
آج تک کسی بھی وزیر اعظم نے پانچ سال کی پوری مدت پوری نہیں کی ہے اور وزیراعظم عمران خان بھی جلد اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست کے ماضی کو دیکھتے ہوئے جمہوری روایات کے مضبوط ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
سیاسی غیر یقینی صورتحال کے درمیان وزیراعظم کو باوقار انداز اختیار کرنا چاہیے تھا لیکن اب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں عمران خان کو پارلیمنٹ کے ذریعے ہٹائے جانے والے واحد وزیراعظم کا اعزاز حاصل ہوسکتا ہے۔اپوزیشن عدم اعتماد کو حکومت ہٹانے کا ایک جمہوری طریقہ کہتی ہے لیکن اس سے معاشی بحران کے شکار ملک میں غیر یقینی صورتحال میں اضافہ ہوتا ہے۔
عمران خان کئی دہائیوں تک قوم پر حکمرانی کرنے والے سیاسی نظام کے بڑے مخالف کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تاہم بدقسمتی سے وہ اپنے وعدے کے مطابق انتخابی اصلاحات یا احتساب میں ناکام رہے۔
اب عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ عوام اگلے انتخابات میں انہیں سادہ اکثریت فراہم کریں تاکہ ناقابل اعتماد اتحادیوں یا کمزور سہارے نہ لینا پڑیں جن کی وجہ سے وہ تحریک عدم اعتماد کا شکار ہو گئے ہیں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کی سیاسی جماعتیں عدم اعتماد کے ووٹ کے نتائج سے قطع نظر انتخابات کے لیے تیاریاں کر رہی ہیں۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ عمران خان جمہوری عمل کو جمہوری انداز میں ہی نمٹائیں اور ایک لیڈر کے طور پر اپنے لئے راستہ بنائیں گوکہ یہ مشکل ضرور ہے لیکن مستقبل بچانے اور جمہوریت کو پٹری پر رکھنے کیلئے آئین کی پاسداری ناگزیر ہے۔