کراچی، 71برس تعلیم وتعلم، 46 برس حدیث پڑھانے والے مولاناڈاکٹرعبدالرزاق سکندرانتقال کر گئے

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی، 71برس تعلیم، 46 برس حدیث پڑھانے والے مولاناڈاکٹرعبدالرزاق سکندرانتقال کر گئے
کراچی، 71برس تعلیم، 46 برس حدیث پڑھانے والے مولاناڈاکٹرعبدالرزاق سکندرانتقال کر گئے

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:دینی تعلیم و تعلم کے شعبے سے وابستہ مایہ ناز شخصیت، جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کے مہتمم اور شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کا انتقال ہوگیا ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق جامعتہ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے مہتمم و شیخ الحدیث مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر علالت کے بعد نجی اسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ 86 سالہ مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق نے 71برس تعلیم و تعلم میں گزارے۔ 46برس سے حدیث پڑھانے والے مولانا عبدالرزاق سکندربنوری ٹاؤن کے پہلے طالب علم ہونے کا اعزار بھی رکھتے تھے۔

جامعہ اسلامیہ مدینہ یونیورسٹی کے قیام کے دوسرے سال علم حاصل کرنے گئے اور جامعہ ازہر سے بھی 1976میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ،ان کا آبائی تعلق ضلع ایبٹ آباد کے نواحی گاؤں سے تھا۔

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندررحمۃ اللہ علیہ کے حالیہ مناصب مندرجہ ذیل ہیں:

رئیس و شیخ الحدیث جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔
صدروفاق المدارس العربیہ پاکستان۔
صدر اقراء روضۃ الاطفال ٹرسٹ پاکستان۔
امیر مرکزیہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان۔

پیدائش و بچپن

1935ء میں ضلع ایبٹ آباد کے گاؤں کوکل کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن ہی سے سلیم الفطرت تھے۔ آپ کے معاصرین گواہی دیتے ہیں کہ آپ میں جو نیکی و اصلاح پیرانہ سالی میں نظر آتی تھی؛ یہ جوانی میں بھی اسی طرح دکھائی دیتی تھی۔ گویا آپ کا بچپن، جوانی، اور بڑھاپا نیکی و تقویٰ کے لحاظ سے ایک جیسے تھے۔ سکندر خان بن زمان خان اپنے حلقہ میں بڑے باوجاہت تھے۔ خاندان اور گاؤں کے تنازعات میں ان سے رجوع کیا جاتا تھا، جنہیں وہ خوش اسلوبی سے نمٹادیا کرتے تھے۔ بچپن ہی سے علماء و صلحاء سے گہرا تعلق تھا جس کا اثر اُن کی زندگی پر ایسا نمایاں تھا کہ دینی معلومات آپ کو خوب ازبر تھیں جس کی بنا پر بہت سے علما بھی آپ سے محتاط انداز میں گفتگو کرتے تھے، کیوں کہ غلط بات پر آپ ٹوک دیا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی پابندی، تلاوتِ قرآن کریم، ذکرِ الٰہی، صلہ رحمی، اصلاح ذات البین، محبت و شفقت، اور ضعفاء کی خبرگیری آپ کے خصوصی اوصاف تھے۔ مسجد کی خدمت و تعمیر سے بہت شغف تھا۔

تعلیم و تعلم

قرآن کریم کی تعلیم اور میٹرک تک دنیاوی فنون گاؤں میں حاصل کیے۔ اس کے بعد ہری پور کے مدرسہ دارالعلوم چوہڑ شریف میں 2 سال، اور احمد المدارس سکندر پور میں 2 سال علم حاصل کیا۔ 1952ء میں مفتئِ اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ تعالیٰ کے مدرسہ دارالعلوم نانک واڑہ کراچی میں درجہ رابعہ سے درجہ سادسہ تک تعلیم حاصل کی۔ درجہ سابعہ و دورۂ حدیث کے لیے محدّث العصر علامہ سید محمّد یوسف بَنُوری رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیا، اور 1956ء میں فاتحۂِ فراغ پڑھا۔ (واضح رہے کہ اس مدرسہ میں درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم آپ ہی تھے)۔ اس کے بعد آپ نے 1962ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منوّرہ(جس کے قیام کو ابھی دوسرا سال تھا) میں داخلہ لے کر چار سال علومِ نبویہ حاصل کیے۔ بعد ازاں جامعہ ازہر مصر میں 1972ء میں داخلہ لیا، اور چار سال میں دکتورہ مکمل کیا، جس میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ امام الفقہ العراقی کے عنوان سے مقالہ سپردِ قلم فرمایا۔

آپ کے اساتذہ کرام
 علامہ سیّد محمّد یوسف بَنُوری(تلمیذ:محدّث علامہ کشمیری)
 حافظ الحدیث مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔
مولانا عبدالحق نافع کاکاخیل(تلمیذ:حضرت شیخ الہند)۔
 مولانا عبدالرّشید نعمانی(تلمیذ: حضرت مدنی)۔
مولانا لطفُ اللہ پشاوری۔
 مولانا سَحبان محمود۔
 مفتی ولی حَسن ٹونکی۔
 مولانا بدیع الزّماں۔ (رحمہم اللہ تعالیٰ)

درس و تدریس
دارالعلوم نانک واڑہ میں دورانِ تعلیم ہی عمدہ استعداد و صلاحیت کی بناء پرکراچی میں لیبیا و مصر کی حکومتوں کے تعاون سےعربی زبان سکھانے کے لیے مختلف مقامات پر ہونے والی تربیتی نشستوں میں پڑھانے کا موقع ملا، اس سے آپ کو تدریس کا کافی تجربہ حاصل ہوگیا۔ علاوہ ازیں بَنُوری ٹاؤن میں درسِ نظامی کی تکمیل سے پہلے ہی حضرت بَنُوری رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی صلاحیتوں کو جانچتے ہوئے اپنے مدرسہ کا استاذ مقرر فرمایا۔ آپ کا زمانۂِ تدریس 1955ء سے رواں برس تک جاری و ساری رہا۔

بیعت و خلافت

ظاہری علوم کی تکمیل کے علاوہ آپ کی باطنی تربیت میں بھی شیخ بَنُوری کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔ علاوہ ازیں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمّد زکریا کاندہلوی اور حضرت ڈاکٹر عبدالحئ عارفی کی صحبت سے مستفید ہوئے، اور حضرت مولانا محمّد یوسف لدھیانوی شہید اور حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہما اللہ تعالیٰ سے اجازتِ بیعت و خلافت حاصل ہوئی۔

جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے تعلق
سن 1955ء میں اس مدرسہ کے درسِ نظامی کے پہلے طالبِ علم کی حیثیت سے یہ تعلق استوار ہوا، دورانِ طالبِ علمی ہی حضرت بَنُوری نے آپ کی عمدہ استعداد دیکھتے ہوئے آپ کو استاذ مقرر فرما کر یہ تعلق مضبوط کردیا، 1977ء میں انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں ناظمِ تعلیمات مقرر ہوئے۔ 1997ء میں مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید کی شہادت کے بعد رئیس الجامعۃ کے لیے آپ کا انتخاب ہوا اور 2004ء میں مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت کے بعد شیخ الحدیث کے مسند نشین بنے؛ یہ دونوں ذمہ داریاں آپ تاحال بحسن و خوبی نبھارہے تھے ۔

عالمی مجلس تحفط ختم نبوت سے تعلق

عقیدۂِ ختمِ نُبوّت کے تحفظ اور فتنۂِ قادیانیت کے تعاقب کے لیے یہ جماعت قیامِ پاکستان کے بعد امیرِ شریعت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیرِ امارت وجود میں آئی۔ 1974ء میں شیخ بَنُوری کی زیرِ امارت اس جماعت کی چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں آئینِ پاکستان میں عقیدۂِ ختمِ نُبوّت کا تحفظ ممکن ہوا، 1984ء میں اسی جماعت کے تحت چلائی جانے والی تحریک کے نتیجہ میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس پاس ہوا۔ پاسپورٹ میں مذہب کے خانہ کی بحالی، اور 2010ء میں ناموسِ رسالت کے قانون کے تحفظ کے لیے چلائی جانے والی تحریک میں بھی اس جماعت کا بنیادی و کلیدی کردار رہا۔ حضرت ڈاکٹر صاحب 1981ء میں اس جماعت کی مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ حضرت سیّد نفیس الحسینی شاہ کے وصال (2008ء) کے بعد آپ نائب امیر مرکزیہ بنائے گئے۔ حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی کے انتقال (2015ء) کے بعد آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ منتخب ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ نے مجلس کی کئی اردو مطبوعات کا عربی میں ترجمہ کرکے عرب ممالک میں اِنہیں عام فرمایا۔

اقراء روضۃ الاطفال ٹرسٹ پاکستان سے تعلق

اکابر و اسلاف کی دعاؤں میں قائم کردہ پاکستان کے پہلے دینی علوم و دنیاوی فنون کا امتزاج رکھنے والے ادارہ کے سرپرست و صدر مفتی ولی حسن ٹونکی، مولانا محمّد یوسف لدھیانوی، حضرت سیّد نفیس الحسینی، مولانا خواجہ خان محمّد، مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے اکابر رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب اس ادارہ کے پہلے سرپرست رہے اور بعد ازاں صدارت کے فرائض سرانجام دئیے۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان سے تعلق

قیامِ پاکستان کے بعد مسلمانانِ پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے، مملکتِ خداداد پاکستان میں دینی مدارس کے تحفظ و استحکام اور باہمی ربط کو مضبوط بنانے، اور مدارس کو منظّم کرنے کے لیے اکابر علمائے اہلِ سنّت و جماعت دیوبند کی زیرِ قیادت 1379ھ بمطابق 1959ء میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا دینی مدارس کا بورڈ ہے؛ جس سے تقریباً بیس ہزار مدارس ملحق ہیں، ان مدارس میں تقریباً چودہ لاکھ طلبہ و آٹھ لاکھ طالبات زیرِ تعلیم ہیں، جبکہ تقریباً ڈیڑھ لاکھ علما و پونے دو لاکھ عالمات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں، آٹھ لاکھ سے زائد حفاظ و دو لاکھ سے زائد حافظات بھی اسی وفاق سے ملحق مدارس کے فیض یافتہ تھے۔

حضرت ڈاکٹر صاحب کے شیخ محدّث بَنُوری کا اس ادارہ کے قیام میں دیگر اکابر کے ساتھ بنیادی کردار رہا ہے۔ 1997ء میں حضرت ڈاکٹر صاحب وفاق کی مجلسِ عاملہ کے رُکن بنائے گئے۔ 2001ء میں نائب صدر مقرر ہوئے، اس دوران آپ صدرِ وفاق شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان کی بیماری و ضعف کے باعث کئی بار اُن کی نیابت کرتے رہے، اور اُن کی وفات کے بعد تقریباً 9 ماہ قائم مقام صدر رہے۔ 14 محرّم الحرام 1439ھ/ 05 اکتوبر 2017ء کو آپ متفقہ طور پر مستقل صدر منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ وفاق کی نصاب کمیٹی اور امتحان کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔

تصانیف و تالیفات
 الطریقۃ العصریۃ۔
 کیف تعلم اللغۃ العربیۃ لغیر الناطقین بھا۔
 القاموس الصغیر۔
 مؤقف الامۃ الاسلامیۃ من القادیانیۃ۔
 تدوین الحدیث۔
 اختلاف الامۃ والصراط المستقیم۔
جماعۃ التبلیغ و منھجہا فی الدعوۃ۔
 ھل الذکریۃ مسلمون؟
 الفرق بین القادیانیین و بین سائر الکفار۔
 الاسلام و اعداد الشباب۔
 تبلیغی جماعت اور اس کا طریقۂِ کار۔
چند اہم اسلامی آداب۔
محبّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔
 حضرت علی اور حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین۔

آپ کی زیادہ تر تصانیف اردو سے عربی، اور کچھ عربی سے اردو میں مترجَم ہیں۔ جبکہ مشہور کتاب “الطریقۃ العصریۃ” عرصہ دراز سے وفاق المدارس کے نصاب میں شامل ہے۔

علاوہ ازیں آپ نے عربی و اردو میں بےشمار مقالات و مضامین سُپردِ قلم فرمائے تھے، جو عربی و اردو مجلّات، رسائل و جرائد، اور اخبارات کی زینت بنے اور مختلف کانفرنسوں میں پڑھے گئے ہیں۔ اِن میں سے اردو مضامین تین مجموعوں کی شکل میں مرتَّب ہوچکے ہیں:
مشاہدات و تأثرات۔
اصلاحی گزارشات۔
 تحفظِ مدارس اور علما و طلبہ سے چند باتیں۔
اس کے علاوہ آپ روزنامہ “جنگ” کے مقبولِ عام سلسلہ “آپ کے مسائل اور اُن کا حل” کے مستقل کالم نگار تھے، جبکہ ماہ نامہ “بیّنات” کے مدیر مسؤل اور مجلّہ “البیّنات” کے المشرف العام بھی تھے۔

شیخ بَنُوری رح کی نسبتوں کے امین، اور مرجع الخلائق شخصیت
شیخ بَنُوری سے آپ کا تعلق اس وقت قائم ہوا جب آپ جامع مسجد بَنُوری ٹاؤن میں عربی کلاس پڑھانے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ کلاس پڑھانے کے بعد کچھ دیر حضرت بَنُوری کی خدمت میں حاضر رہتے۔ اگلے سال اسی مدرسہ میں داخلہ لے کر آپ نے یہ رسمی تعلق دائمی کرلیا، سفروحضر میں خادم کی حیثیت سے ہمیشہ ساتھ رہتے۔ حضرت کو بھی آپ سے ایسی محبت تھی کہ اپنے مدرسہ میں استاذ مقرر فرمایا، مدینہ یونیورسٹی میں پڑھنے کے لیے چار سال کی رخصت دی، جامعہ ازہر میں داخلہ کے لیے خود ساتھ لے گئے۔ 1961ء میں حج پر ساتھ لے گئے تو حج کے تمام مناسک اپنی نگرانی میں کروائے، کیوں کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا پہلا حج تھا۔ انہی محبتوں و شفقتوں نے آپ کو اپنے شیخ کا ایسا گرویدہ بنادیا کہ زندگی بھر کے لیے انہی کے ہوکر رہ گئے۔ شیخ کے وصال کے بعد کچھ عرصہ تک یہ کیفیت رہی کہ جہاں شیخ کا تذکرہ چھڑتا تو آپ کی آنکھیں ضبط نہ کرپاتیں اور پھر بڑے والہانہ انداز میں شیخ کے واقعات سناتے۔ اس وقت آپ اپنے شیخ کی تمام نسبتوں کے امین اور ان کے مسند نشین و جانشین تھے ۔ شیخ بَنُوری بیک وقت صدرِ وفاق، امیرِ مجلس تحفظ ختم نبوت، رئیس و شیخ الحدیث جامعہ بنوری ٹاؤن تھے۔حضرت ڈاکٹر صاحب بھی اس وقت ان تمام مناصب پر اپنے شیخ کی یادگار تھے۔ آپ فناء فی الشیخ کی تصویر، اور شیخ کی نسبتِ اتحادی کا مظہر اتمّ تھے۔ اپنے شیخ ہی کی نسبت سے آپ اس وقت پورے ملک کے مشائخ و اہل اللہ کے معتَمد، مرجع الخلائق، اور ایسی غیرمتنازع شخصیت تھے کہ سب کی عقیدت و احترام آپ کو حاصل تھی۔ اور آپ کی مجلس و صحبت سے استفادہ کرنا ہر کوئی اپنی سعادت سمجھتا تھا۔آپ کی نمازِ جنازہ بنوری ٹاؤن میں آج رات 10 بجے ادا کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے کزن طارق شفیع کا انتقال، لاہور میں سپردِ خاک کردیا گیا

Related Posts