پوری دنیا میں صحافیوں کو حقائق منظرعام پر لانے سے روکنے کیلئے دھونس دھمکیوں،عدالتی کارروائی اورمارپیٹ سمیت ہراساں کرنے اور دیگر طریقوں سے روکنے کی کوشش عام ہے جبکہ اکثر اوقات صحافیوں کو سچ کی تلاش میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑجاتے ہیں تاہم فرائض کی انجام دہی کے دوران صحافیوں کی ہلاکتوں میں تعداد 17سالوں میں 2019 میں کم ترین سطح پر آگئی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کئی خطرناک تنازعات اور انتقامی کارروائی کے دوران قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی۔
2019 میں 49 صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 2002 کے بعد یہ سب سے کم تعداد ریکارڈ کی گئی ہے۔شام اور میکسیکو صحافیوں کیلئے غیرموزوں ممالک رہے، میکسیکو میں نشے کی بہتات کے باعث منشیات مافیا کے ہاتھوں اکثر صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے مافیا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
میکسیکو میں صحافیوں کیلئے بڑھتی مشکلات کے پیش نظر صحافیوں کو ان کے اداروں نے رپورٹنگ کرنے سے بھی روک دیا تھا۔شام میں جاری شورش کےباعث وہاں بھی صحافیوں کی اموات زیادتی تھیں تاہم رواں سال شام میں بھی صحافیوں کی ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے سالانہ اوسط 80 صحافی اپنی جان کھورہے ہیں، صحافی یمن، شام، افغانستان میں اپنی صحافتی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے قتل کئے گئے ،ترک میں سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل کودنیا بھر کے اخبارات میں نمایاں کوریج دی گئی جبکہ مالٹا میں 53 سالہ صحافی ڈیفن کیروانا گالیزیا 2017 میں ایک کار بم دھماکے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
ان کے قتل کی تحقیقات کے دوران حکومت میں ہر سطح پر بد عنوانی کا انکشاف ہوا تھا۔۔ سلواکیہ میں اطالوی مافیا کے کیخلاف کام کرنے پر صحافی جون کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیاگیاتھاآج بھی دنیا بھرمیں کام کرنیوالے صحافیوں کو شدید مشکلات کاسامنا ہے۔
2019ء میں 389 صحافی جیل میں قید ہیں، ان میں سے نصف صحافی صرف تین ملکوں میں قید ہیں جبکہ چین، مصر اور سعودی عرب میں57 کو یرغمال بنایا گیا، جس میں سے زیادہ تر یمن، شام، عراق اور یوکرین کی جیلوں میں قید ہیں۔
پاکستان میں میڈیاکی آواز دبانے کیلئے اکثر وبیشتر قیدوبند کی دھمکیوں دیگر طریقوں سے ہراساں کرکے صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش کی جاتی ہے، میڈیا میں بطور کیمرہ مین خدمات انجام دینے والوں کیلئے رپورٹرز کی نسبت خطرات زیادہ دیکھتے گئے ہیں تاہم انتقامی کارروائیوں کے دوران صحافیوں کو قتل کرنا معمولی بات سمجھا جاتا ہے تاہم رواں سال کسی کیمرہ آپریٹر کی ہلاکت کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے بعد جہاں عوام کو اطلاعات تک رسائی ملی وہیں میڈیا کی آزادی نے غیرقانونی کاموں میں ملوث کئی مافیاز کو بے نقاب کرکے اپنے لئے بھی مشکلات پیدا کیں۔زیر عتاب صحافیوں کو نشانہ بنانے کا عمل تسلسل سے جاری ہے۔
سرکاری بیانیے کی مخالفت کرنیوالے نیوز چینلز کو کیبل پر آگے پیچھے کر کے اور اخبارات کی ترسیل اور اشتہارات کی تقسیم پر اثرانداز ہو کر مخالف سمجھی جانے والی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اپنی آزادی برقرار رکھنے کے لیے پاکستان میں سینئر صحافیوں اور اہل قلم نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔