مولانا فضل الرحمٰن کی آل پارٹیز کانفرنس

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ اور پلان بی کی ناکامی کے بعد آج 26 نومبر کو آل پارٹیز کانفرنس بلالی ہے، کانفرنس میں اپوزیشن رہنما حکومت کو گھر بھجوانے کے حوالے سے نیا لائحہ عمل تیار کرینگے۔

جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کسی بھی قیمت پر حکومت کو گھر بھجوانے پر بضد ہیں ، مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے آزادی مارچ حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی پر ختم کیا ہے اور انہوں نے دسمبر میں ملک میں تبدیلی کی نوید سنائی ہے۔

تحریکِ انصاف کے خلاف سر جوڑ کر بیٹھنے کے لیے 9 اپوزیشن پارٹیوں کو دعوت دی گئی ہے تاکہ مخالف پی ٹی آئی حکمتِ عملی ترتیب دی جاسکے۔جے یو آئی (ف) سربراہ مولانا فضل الرحمان نے متعدد ممتاز سیاست دانوں کو دعوت دی ہے جن میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں جو آل پارٹیز کانفرنس میں ممکنہ طور پر شرکت کریں گے۔

پختونخواملی عوامی پارٹی، اے این پی، جمعیت علمائے پاکستان اور جمعیت اہلِ حدیث کے ساتھ دیگر سیاسی پارٹیوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے، مولانافضل الرحمان نے احسن اقبال اور دیگر رہنماؤں کو ذاتی طور پر ٹیلیفونک رابطے کے دوران شرکت کی دعوت دی ہے۔

تاہم مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اور صدر شہبازشریف اس وقت لندن میں موجود ہیں جبکہ مریم نواز نے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے جبکہ بلاول بھٹوز رداری کی جانب سے یقین دہانی کے باوجود شرکت کا امکان کم ہے۔

آزادی مارچ سے قبل بھی اپوزیشن جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں اسمبلیوں سے استعفوں پر اتفاق ہوا نہ کوئی اپوزیشن حکومت کیخلاف کسی ایک نکتے متفق ہوسکی۔ آزادی مارچ میں بھی حکومت کے ارادے دیکھتے ہوئے پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے محض جلسے میں شرکت کرکے مولانا کو چھوڑ کرواپسی کی راہ لی ۔

اس قبل اے پی سی میں اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا قصد کیا اور دلچسپ بات یہ کہ اپوزیشن کے پاس مطلوبہ ووٹ موجود تھے لیکن اس کے باوجود خفیہ رائے شماری میں اپوزیشن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اپوزیشن جماعتیں اسمبلیوں سے استعفے دینے کو بھی تیار نہیں ۔

مسلم لیگ ن ان دنوں جن حالات سے گزررہی ہے اس میں کسی بھی قسم کے جارحانہ اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی اورپیپلزپارٹی کسی بھی غیر جمہوری اقدام کی شروع سے مخالف رہی ہے۔ اپوزیشن کے پاس نہ کوئی ایجنڈا ہے نہ کوئی مقصد ایسے میں یہ اے پی سی بھی محض چائے پارٹی ہی ثابت ہوگی۔

Related Posts