اسرائیل کا بدترین جنگی جرم

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

فلسطینیوں پر اسرائیل کے دہائیوں سے جاری مظالم کےخلاف سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق قابض ریاست پر کیے گئے حملوں کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے اپنے سرپرستوں بالخصوص امریکا کی سرکردگی میں غزہ کے بائیس لاکھ سے زیادہ فلسطینی باشندوں کا بلا تعطل قتل عام شروع کر رکھا ہے۔

منگل کو غزہ پر اسرائیل کی نان اسٹاپ جارحیت، سفاکیت اور وحشیت کا گیارہواں دن تھا۔ دن بھر غزہ کے بچے کھچے شہری ڈھانچے کو تباہ کرنے اور نہتے اور غیر متحارب فلسطینیوں پر موت برسانے کے بعد بھی اس خونی بھیڑیے کا دل نہ بھرا تو اس نے دن کا اختتام رات گئے غزہ کی پٹی کے شہر خان یونس میں ایک اسپتال کو وحشیانہ بمباری کا نشانہ بناتے ہوئے کیا، جس میں اب تک شہادتوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔

یہ بات اب واضح ہوچکی ہے کہ اسرائیل کسی صورت امن نہیں چاہتا، وہ ایک بھیڑیا اور وحشی درندہ ہے، جو صرف اور صرف خون پینا اور انسانوں کا قتل عام کرنا جانتا ہے۔ اسرائیل نے سات اکتوبر کو حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجووں کے اچانک شبخون کو لیکر اپنی ہمنوا دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کیا اور اپنے سرپرستوں کی آشیرباد، امداد اور ہمہ جہت تعاون و ہمدردی کے جلوے میں ”حماس کے دہشت گردوں“ کو سبق سکھانے کی آڑ میں اہل غزہ پر حملہ آور ہوا۔

ابتدا میں اسرائیل کی سرپرست نام نہاد عالمی برادری بھی یہی سمجھ رہی تھی کہ اسرائیل صرف اپنے دفاع میں حماس کے ”دہشت گردوں“ کو ہی سزا دینا چاہتا ہے، چنانچہ اسرائیل کے منصوبے کو عوامی تائید دلانے کیلئے مغربی حکومتوں اور ان کے ذرائع ابلاغ نے اس پروپیگنڈے پر رات دن ایک کردیا کہ اسرائیل مظلوم ہے، حماس نے اس پر ظلم کا پہاڑ توڑا ہے۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل اپنی درندگی اور وحشیت کے ذریعے نہ صرف دنیا کو اپنا حقیقی تعارف کرواتا جا رہا ہے بلکہ ساتھ ہی اپنے سرپرستوں کے چہرے سے بھی امن اور انسانیت کا نقاب نوچ رہا ہے۔ اس کے سرپرستوں اور شریک جرم عالمی طاقتوں پر اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اسرائیل کے اصل عزائم کیا ہیں، وہ کیسے حماس سے بدلہ لینے کی آڑ میں موعودہ آزاد فلسطینی ریاست کے ایک اہم بچے کھچے حصے غزہ کو بھی اپنے تجاوزات اور مقبوضات میں شامل کرنے کے درپے ہے، چاہے اس کیلئے غزہ کی بائیس لاکھ سے زیادہ کی انسانی آبادی کی نسلی تطہیر کیوں نہ کرنی پڑے، چنانچہ یہ منصوبہ دیکھ کر اب اسرائیل کے سرپرستوں نے بھی سمجھ لیا ہے کہ اسرائیل کا مقصد امن نہیں، تخریب ہے، کیونکہ غزہ کو قبضہ کرنے کا کوئی بھی منصوبہ جنگ کا دائرہ پورے خطے میں پھیلانے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے جس اسپتال کو درندگی کا نشانہ بنایا ہے، یہاں ایک طرف اسرائیل کے ہی حملوں سے زخمی ہونے والے سینکڑوں فلسطینی زیر علاج تھے، دوسری طرف اس اسپتال کے احاطے میں اسرائیل کی بلا تعطل جاری بمباری سے جان بچانے کیلئے سینکڑوں فلسطینیوں نے یہ سوچ کر پناہ لے رکھی تھی کہ یہ جگہ شاید صہیونی درندگی اور بہیمیت سے محفوظ رہے گی اور اسرائیل کم از کم اسپتال کو نشانہ نہیں بنائے گا، جو عالمی امن کے ٹھیکیداروں اور اسرائیل کے سرپرستوں کے ہی خود وضع کردہ قوانین جنگ کے منافی ہے، مگر اسرائیل نے ان مجبور، بے کس اور بے بس فلسطینیوں کو یکسر غلط اور خود کو خون آشام درندہ اور غیر مہذب وحشی ریاست ثابت کرتے ہوئے اسپتال کو بھی معاف نہیں کیا۔

اسپتال پر حملہ وحشیت اور درندگی کی انتہا ہے، جس پر اسرائیل کے سرپرست بھی چیخ اٹھے ہیں۔ فلسطینی اسرائیل کے بدترین دشمن سہی، وہ انسان بھی ہیں اور انسانیت کے ناتے جنگ کے دوران انسانی وقار اور احترام کے تقاضوں کے مطابق سلوک کے حقدار ہیں، تاہم اسرائیل نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے دل میں انسانیت کے نام پر کوئی رحم اور ہمدردی نہیں، اس کیلئے زمین کا ٹکڑا ہی اہم ہے، جس کو ہتھیانے کیلئے بے بس و کمزور فرزندان زمین کی نسل کشی بھی اس کے تئیں معمولی بات ہے۔
اسرائیل نے اسپتال پر حملہ کرکے اپنے سرپرستوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے، جو یہ سوچ کر اپنا ضمیر تھپک رہے تھے کہ اسرائیل عام فلسطینیوں کو نشانہ نہیں بنا رہا، دہشت گرد ہی اس کا ہدف ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب اسرائیل نے کھسیانی بلی کی طرح اس حملے کی ذمے داری بے شرمی اور ڈھٹائی سے الٹا مزاحمتی تنظیم اسلامی جہاد کے سر ڈال دی ہے۔

اسرائیلی فوجی ترجمان نے گزشتہ دن یہ مضحکہ خیز دعویٰ کیا کہ اسپتال اسلامی جہاد کے اسرائیل پر ناکام میزائل حملے کا ہدف بنا ہے۔ صہیونی فوجی ترجمان کے مطابق اسلامی جہاد اسرائیل کو نشانہ بنانا چاہتی تھی، نشانہ خطا ہوکر اس اسپتال کو جالگا۔ یہ ایسی لولی لنگڑی تاویل ہے کہ اس کو اسرائیل کے سرپرستوں نے بھی قابل التفات نہیں سمجھا ہے۔ تاہم یہ طے ہے کہ اسرائیل کے سرپرست اب بھی اس درندے کی حمایت سے باز نہیں آئیں گے۔

اسپتال پر حملہ اس وقت ہوا جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کی جنایات اور ظالمانہ اقدامات کے دفاع کی خاطر مشرق وسطی کے دورے کیلئے پا بہ رکاب تھے۔ اس دورے میں جو بائیڈن اردن میں فلسطینی مقتدرہ کے سربراہ محمود عباس، مصری صدر سیسی اور اردن کے بادشاہ سے بات چیت کرنے والے تھے، تاہم اس حملے کے بعد اردن کے بادشاہ نے یہ ملاقات اور مذاکرات احتجاجاً منسوخ کر دیے ہیں۔
امریکا اس بدترین صورتحال میں بھی اسرائیل کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہے اور اسرائیل کے صریحاً غلط اور ناجائز موقف کے حق میں زمین ہموار کرنے کیلئے ڈھنڈورچی اور وکیل کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزہ کو ہتھیا کر سارا ٹنٹا ہی ختم کردے، اس مقصد کیلئے وہ چاہتا ہے بائیس لاکھ سے زائد فلسطینی غزہ چھوڑ کر مصر چلے جائیں۔

پہلے امریکی وزیر خارجہ اس اسرائیلی موقف بلکہ خام خیالی پر عرب ملکوں کو قائل کرنے نکلے تھے، مگر عربوں نے یہ منصوبہ بالاتفاق مسترد کر دیا، چنانچہ اب بائیڈن خود عربوں کو رام کرنے چلے تھے کہ اسرائیل نے اسپتال کو نشانہ بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ انسانیت کا کھلا دشمن ہے، اس کے کسی منصوبے پر بات کرنا انسانی وقار کے منافی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل نے اسپتال کو نشانہ بنا کر اپنے بدترین جنگی جرائم کے باب میں ایک اور سنگین جنگی جرم کا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اب اقوام متحدہ، جنگی جرائم کے سدباب کے عالمی قوانین اور اداروں اور امن و انسانیت کے علمبرداروں کا امتحان ہے کہ وہ اس بار بھی گونگے شیطان کا کردار ادا کریں گے یا پھر ظالم و جارح کو اس کے جرائم کی سزا دینے کیلئے سامنے آئیں گے۔

Related Posts