قضیہ کشمیرتوتمام ہوچکا ۔؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

قضیہ کشمیر توکب کاتمام ہوچکا،تقسیم کشمیرکاجوسفرسابق آمرپرویزمشرف کے دورمیں شروع ہواتھا موجودہ حکومت کے دورمیں وہ سفرتیزی سے مکمل ہوا۔جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قضیہ کشمیراب بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں اورکشمیریوں کی امنگ کے مطابق حل ہوگاوہ احمقو ں کی جنت میں رہتے ہیں ۔

وزیراعظم عمران خان نے یکم نومبرکو گلگت بلتستان کو پاکستان کا نیا صوبہ بنانے کا اعلان کر کے اس منصوبے پرمہرتصدیق ثبت کی ہے ،وزیراعظم عمران خان ماضی میں ایک اخباری انٹرویومیں کہہ چکے ہیں کہ کشمیرکابہترین حل تین حصوں میں تقسیم ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کودے دیاجائے ،لداخ بھار ت لے لے اوروادی وآزادکشمیرکوخودمختاربنادیاجائے ۔

نائن الیون کے بعد جب عالمی طاقتیں نیٹوکی چھتری تلے افغانستان پرحملہ آورہوئیں تووہ صرف افغانستان پرحملہ آورنہیں ہوئی تھیںبلکہ ان کے پیش نظریہ خطہ تھا اوراس خطے کاسب سے اہم اورپرانامسئلہ، مسئلہ کشمیرتھا امریکہ سمیت دیگرطاقتیں یہ سمجھتی ہیں کہ جب تک مسئلہ کشمیرآرپارنہیں ہوگا اس وقت انہیں اس خطے میںانہیں تسلط حاصل نہیں ہوگا چہ جائیکہ یہ تسلط مود ی کی صورت میں ہویاکسی اورشکل میں ہو۔

عالمی طاقتوں کے نزدیک کشمیرکے مسئلے کاحل اس کی تقسیم ہی ہے ،اگرانہوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ حل کرناہوتاتوسترسال سے زائدعرصہ یوں آنکھیں بندنہ کرتے ۔اب امریکہ افغانستان سے رسواکن شکست کے بعد واپس جارہاہے توبرطانوی حکومت کی طرح وہ کشمیرکے حوالے سے ایک نیازخم لگاکے جارہاہے جس کے تحت کشمیری مزیدظلم کی چکی میں پستے رہیںگے۔

کشمیریوں کی لازوال قربانیوں نے مسئلہ کشمیرکویہاں تک پہنچایاتھا اب ایک تقسیم کشمیرکے منصوبے پرعمل کرکے ان قربانیوں کوضائع کیاجارہاہے ،بھارت کی طرف سے گزشتہ سال مقبوضہ کشمیرکی آئینی حیثیت ختم کرکے جواقدام اٹھایاتھاوہ بھی اسی تقسیم کشمیرکے عالمی منصوبے کاحصہ تھا ۔

فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ پاکستان کی بجائے بھارت نے اقدام اٹھایا، مشرف فارمولا بھی کئی بار ابھرا اور دب گیا۔ مشرف کے وزیرِ خارجہ بھی کشمیر کے حل کے قریب پہنچنے کے دعوے کرتے رہے اور مشرف کے جانے کے بعد بھی ٹی وی پروگراموں میں فخر سے کہتے تھے کہ ہم کشمیر کے حل کے قریب تھے۔پرویزمشرف عالمی طاقتوں کے مہرے کے طورپرسامنے آئے تھے اورانہوں نے جہاں دیگرمعاملات میں ان قوتوں کی نمائندگی کی وہاں انہوں نے کشمیرپربھی ان کے ایجنڈے کوآگے بڑھایا۔

پرویزمشرف نے اکتوبر 2004 میںتقسیم کشمیرکے متعلق اپنے فارمولہ واضح کیاتھا جس کے تحت مشرف یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو جغرافیائی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر 7 حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پھر دونوں ممالک یہ طے کرلیں کونسے حصے ان کے پاس ہوں گے اور کونسے حصوں کو خودمختاری دی جاسکتی ہے۔

پرویز مشرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کو 2 حصے قرار دیتے تھے، ایک آزاد کشمیر اور دوسرا شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) جبکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے وہ 5 حصے کرنے کے حق میں تھے۔مشرف نے نیویارک میں بھارتی وزیرِاعظم منموہن سنگھ سے کہا تھا کہ استصوابِ رائے اور کنٹرول لائن کو سرحد بنانے کی باتیں چھوڑیں اور دیگر تجاویز پر غور کریں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دونوں ممالک اس حوالے سے کام بھی کررہے ہیں۔تقسیمِ کشمیر پر بھارت نے ان دوسالوں میں جس فارمولے پر عمل کیا تقریبایہی مشرف کا فارمولا تھا۔ مشرف نے مذہبی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم کی بات کی تھی، مودی حکومت جموں و کشمیر کو 3 حصوں میں بانٹ رہی تھی لیکن عین وقت پر جموں و کشمیر کو اکٹھا رکھ کر لداخ کو الگ کیا گیا۔ ہوسکتا ہے مودی حکومت اگلے مرحلے میں کشمیر کے 7 حصے کردے ۔ یوں مسئلہ کشمیر کا مشرف فارمولا(عالمی ایجنڈہ ) مکمل ہوجائے،لیکن ایک بات طے ہے کہ تقسیم کشمیرہوچکی ہے ۔

یہ عالمی طاقتوں کے کھیل کاہی نتیجہ ہے کہ مشرف دورمیں ہندوستان نے کنٹرول لائن پرخاردارتار لگا کرتقسیم کشمیرکے منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کی بنیاد رکھی گئی مگرہماری طرف سے بھارت کے اس اقدام کے خلاف کوئی سخت ردعمل سامنے نہیں آیاحالانکہ ایل اوسی پرخاردارتاریں لگانابین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی شدیدخلاف ورزی تھی بھارت نے کنٹرول لائن پرطویل باڑھ لگاکرکشمیرپراپناقبضہ مستحکم کیااورہم نے چوں تک نہ کی ۔

یہ خاردارتاربھی تقسیم کشمیرکے منصوبے کاحصہ تھی بدقسمتی سے موجودہ حکومت بھی ایک عالمی ایجنڈے کے تحت ہی آئی ہے اوریہ حکمران بھی عالمی ایجنڈے کی تکمیل میں پرویزمشرف کاپارٹ ٹوہیںحکومت کی طرف سے مودی کی پیش قدمی کے جواب میں ہماری حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے کہ جس سے یہ تاثرمزیدمضبوط ہواہے کہ ہمارارویہ نہ صرف معذرت خواہانہ رہابلکہ ہم ایسامئوقف اپناتے رہے کہ جس سے اس تاثرکوتقویت ملی کہ کشمیرکے حوالے سے قوم جس حساس اورجذباتی اندازمیں وابستہ تھی وہ حساسیت اورجذباتیت ختم ہوجائے اورموجودہ حکومت کافی حدتک اس میں کامیاب ہوگئی ہے۔

اب اچھے خاصے لوگ یہ کہتے ہیں کہ کسی ناکسی طرح کشمیرسے جان چھڑائی جائے ۔بھارت مقبوضہ کشمیرکوہڑپ کررہاتھا توہمارے وزیراعظم کی طرف سے یہ ردعمل سامنے آیاکہ اگربھارت نے آزادکشمیرپرحملہ کیا توہم بھرپورجواب دیں گے،مودی جب کشمیرغصب کررہاتھا توعمران خان نے اسمبلی کے فلور پر یہ فرما یا کہ کیا اب میں جنگ کر دوں؟انڈیانے کشمیرپرحملہ کیا توہماری بہادرافواج نے اس کے طیارے مارگرائے اورایک پائلٹ کوکوگرفتارکرلیا مگرہماری حکومت نے ابھی نندن کوواپس کردیا۔

مودی جب کشمیرپراپناقبضہ مستحکم کررہاتھا توہم پاکستان کانیانقشہ جاری کررہے تھے اورقوم کویہ بتارہے تھے کہ اب نقشے کی حدتک کشمیرپاکستان میں شامل ہے عملاًامیدنہ رکھیں ،مودی کشمیرمیں آبادی کاتناسب بدل رہاتھا ہم کشمیرہائی وے کانام بدل کرسری نگرہائی وے رکھ رہے تھے ۔حکومت کے کشمیرکے حوالے سے سوادوسالہ اقدامات اٹھاکرہی دیکھ لیجیے ہمارے پاس اقوام متحدہ میں کی گئی تقریرکے علاوہ اورہے کیا؟ ۔

پی ٹی آئی اب تک مولانافضل الرحمٰن کی بطورچیئرمین کشمیرکمیٹی کی کارکردگی پراعتراضات کرتی رہی ہے مگراپنی حالت یہ ہے کہ خود دوسالوں میں کشمیرکمیٹی کے دوچیئرمین بنانے سے آگے نہ بڑھ سکی، کشمیرکمیٹی ابھی تک کشمیری قیادت کوبھی اپنی پالیسی بارے اعتمادمیں نہیں لے سکی ہے ،ہمارے وزیراعظم نے ہی یہ بیان دیاتھا کہ مودی کی جیت سے مسئلہ کشمیرحل ہوگااورظاہرہے کہ یہ حل ہماری امنگوںکے مطابق نہیں بلکہ بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق تقسیم کشمیرکاتھا ۔

کبھی ہمیں یہ خوشخبری سنائی گئی کہ ٹرمپ بھارت اورپاکستان کے درمیان ثالثی کریں گے کوئی بتائے گا کہ کشمیرپرٹرمپ کی ثالثی کیاہوئی ؟،جس طرح پرویزمشرف نے کشمیرکی تحریک کوختم کرنے کے لیے کشمیری مجاہدین کاگلاگھونٹا،موجود ہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کی آڑمیں کشمیرکی جہادی تحریک کومکمل طورپررول بیک کرکے کشمیرپلیٹ میں رکھ کرمودی کے حوالے کیا۔

کئی سیاسی رہنماء ہمیں یہ باورکرواتے رہے کہ ہمارے پاس اچھا موقع ہے کہ افغانستان میںالجھے امریکہ کی واپسی کومسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کردیاجائے مگرنااہل حکومت یہ بھی نہ کرسکی ۔کشمیری اب بھی یہ پوچھ رہے ہیں کہ ہم کشمیرپراپنامقدمہ ہارتونہیں گئے ؟کہیں ہم کشمیرسے دستبردارتونہیں ہوگئے ؟کیاکشمیرکے مسئلے پرہم عالمی ڈیل تونہیںکرچکے ہیں ؟ہم تقسیم کشمیرکے سازشی منصوبے میں توشریک نہیں ہوگئے ؟ حالانکہ سب کومعلوم ہے کہ ہم کشمیرسے دستبردارہوچکے ہیں ۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا آئین اس بات کی تشریح کرتا ہے کہ ایک اکھنڈ بھارت کاقیام اور ریاست جمو ں وکشمیرکو بھارت میں ضم کرنا ان کا مشن ہے۔اب کی بار نریندر مودی نے الیکشن جیتنے کے فوری بعد پہلا کام اپنی فاشسٹ جماعت کے آئین کی تکمیل کرتے ہوئے کشمیر کی ریاست کو ٹکڑے ٹکڑے کر نے کا کیاہے جبکہ ہم عالمی ایجنڈے کی تکمیل کرنے کے بعد بدستوریہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں؟اوراب بھی کشمیریوں کو یہ امیدہے کہ ہماراوکیل ہمارامسئلہ حل کرائے گا ؟۔

Related Posts