قیامِ پاکستان کو رواں برس 14اگست کے روز 75 سال مکمل ہو گئے اور اب سبز ہلالی پرچم کی حامل یہ پاک سرزمین اپنے قیام کے 76ویں برس میں داخل ہوچکی، پھر بھی نظامِ انصاف سے لے کر عدلیہ اور بیوروکریسی تک ملک کا کوئی بھی ادارہ اپنے فرائض درست طور پر سرانجام دیتا نظر نہیں آتا۔
کبھی عدلیہ، کبھی الیکشن کمیشن تو کبھی سیاستدانوں سے ایسے ایسے بیانات سننے کو ملتے ہیں کہ انسان سر پکڑ کر بیٹھ جائے کہ پاکستان میں کس ادارے کا کیا کام ہے اور وہ کس کام پر لگا دیا گیا ہے یا پھر اس کے افسران اپنے فرائض کی بجا آوری کی بجائے کس قدر لوٹ کھسوٹ اور سستی شہرت کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔
اگر ملک کا چیف جسٹس مشہور و معروف مقدمات پر تو سوموٹو ایکشن لے اور عوام کو حقیقی انصاف دینے کی بات سے پہلو تہی کی جائے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ سپریم کورٹ شہباز شریف اور عمران خان سے متعلق مقدمات کی سماعت میں مصروف ہو اور قائدِ اعظم کے باوقار ملک کا انصاف سے محروم شہری 5 سال بعد کسی مقدمے کا فیصلہ اپنے حق میں آنے پر خوشی سے ہی مر جائے، اسے آپ کیا نام دیں گے؟ انصاف میں دیر ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے؟
رواں ماہ 20اکتوبر کے روز چیف الیکشن کمشنر کی زیرِ قیادت الیکشن کمیشن کے 3 رکنی بینچ نے عمران خان کے خلاف ضابطۂ اخلاق خلاف ورزی پر کیس کی سماعت کی۔ چیف الیکشن کمشنر نے فرمایا کہ آئین میں کہاں ہے کہ ایک شخص رکنِ قومی اسمبلی ہو کر اسی عہدے پر الیکشن لڑے؟ تحریکِ انصاف کے 150 استعفے لائیں۔ ابھی قبول کر لیتے ہیں۔
دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے اگر اجازت ہی نہ دی ہوتی تو عمران خان جو پہلے سے ہی چیف الیکشن کمشنر کی رائے میں رکنِ قومی اسمبلی تھے، وہ بطور امیدوار بیک وقت 7 حلقوں سے الیکشن کیسے لڑ سکتے تھے؟ رہی تحریکِ انصاف کے اراکین کے استعفوں کی بات تو واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کتنے اراکین استعفوں سے انکاری اور کتنے ان پر تاحال قائم ہیں۔سیاست میں بیان بازی اور جھوٹ سچ کا مکسچر چلتا رہتا ہے تاہم الیکشن کمیشن ایک قومی ادارہ ہے جس کی اپروچ مختلف ہونی چاہئے۔
اسی الیکشن کمیشن پر تحریکِ انصاف حلقہ این اے 237 میں دھاندلی کے الزامات عائد کرچکی ہے اور ملیر سٹی کے ایس ایچ او سمیت 2 پولیس اہلکار کراچی میں ضمنی انتخاب کے دوران سکیورٹی کے ناقص انتظامات پر معطل بھی ہوچکے ہیں کیونکہ ضمنی الیکشن کے دوران ہی پی ٹی آئی کراچی کے صدر بلال غفار ایک حملے کے نتیجے میں زخمی ہوگئے تھے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ اور پولیس سمیت ملک کے تمام اداروں کے حکام سر جوڑ کر بیٹھیں اور اپنے افسران اور اہلکاروں کا احتساب کریں کہ انہیں عوام کی خدمت کا جو کام سونپا گیا تھا، وہ اس میں اپنی ذمہ داریاں کس حد تک پوری کر رہے ہیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات کیلئے پاکستان کے کم و بیش ہر ادارے کو بے تحاشہ کام کرنا ہوگا، شاید تب کہیں جا کر ملک کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم عوام کی داد رسی کی کوئی صورت پیدا ہو۔