چوری شدہ مقالے کا معاملہ، وزارت مذہبی امور کا آسیہ اکرام کیخلاف کاروائی سے گریز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چوری شدہ مقالے کا معاملہ، وزارت مذہبی امور کا آسیہ اکرام کیخلاف کاروائی سے گریز
چوری شدہ مقالے کا معاملہ، وزارت مذہبی امور کا آسیہ اکرام کیخلاف کاروائی سے گریز

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: وزارت مذہبی امور میں ریاست مدینہ اور اسلامی فلاحی مملکت کا تصورکے عنوان سے ڈاکٹر عامر طاسین کا مقالہ “سرقہ” کرنے والی آسیہ اکرام کو وزارت ہی کے متعلقہ شعبہ کے افسران کی جانب سے بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ریکارڈ کے مطابق دیگر انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ آسیہ اکرام کو 2019 میں باقاعدہ کانفرنس کا دعوت نامہ جاری کیاگیاتھا۔ جس کے مطابق شعبہ تحقیق کے پاس تمام تر ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔ 10 نومبر کو ہوٹل سیرینا میں ہونے والی تقریب میں دیگر انعام یافتہ لوگوں کے علاوہ آسیہ اکرام نے بھی اپنا انعام وصول کیا تھا۔ لیکن جب انکوائری کمیٹی نے اس معاملے میں ریکارڈ طلب کیا تو متعلقہ شعبہ کے ذمہ داروں نے بتایا کہ ہمارے پاس اس خاتون کی نہ ہی کوئی تصویر ہے اور نہ کوئی ویڈیو ریکارڈنگ ہے۔

کمیٹی اراکین کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ آسیہ خاتون کا مقالہ کے ساتھ قومی شناختی کارڈ، ڈومیسائل پر مشتمل دیگر تمام شواہد غائب کردیے گئےہیں۔ جبکہ جو فون نمبر اور ایڈریس ملا تھا، انکوائری شروع ہوئی تو فون نمبر بھی بند اور ایڈریس بھی جعلی نکلا تھا۔

خیال یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ  متعلقہ شعبہ کے ذمہ دار مشاہد حسین  اپنی کوتاہی چھپانے کی خاطر آسیہ خاتون کو بچا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اب تک کمیٹی ارکان کو وزارت ہی کے اندر سے افسران کا تعاون نہیں مل رہا ہے۔

کمیٹی کے خیال کے مطابق حیرت انگیز طور پر مقالہ کو نہ تو اسکروٹنی کمیٹی اور نہ ہی ایپکس کمیٹی دیکھ سکی اور آسیہ اکرام کے جعلی مقالہ کو مقابلہ کی فہرست میں شامل کردیا۔ کمیٹی کو اب تک وزارت ہی میں موجود اُن افراد کے بارے میں بھی معلوم نہ ہوسکا ہے، جنہوں نے سہولت کاری کام انجام دی۔

ایم ایم نیوزکو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق کچھ دن قبل وزارت میں سیکریٹری مذہبی امور کے حکم سے ایگیزیکٹیو ڈائریکٹر مجلس علمی فاؤنڈیشن اور رکن بورڈ آف گورنر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، معروف مذہبی سکالر محقق ڈاکٹر عامر طاسین کی جانب سے  بھیجی جانے والی درخواست پر 4 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

کمیٹی کے انچارچ سینئر جوائنٹ سیکریٹری عالمگیر خان کے مطابق چند سوالات مرتب کر کے جواب کے لیے ڈاکٹر عامر طاسین  اور آسیہ اکرام کے پتہ پر خط روانہ کیے تھے۔

کمیٹی کو ڈاکٹر عامر طاسین کی جانب سے جواب موصول ہو چکا ہے۔ لیکن آسیہ اکرام صاحبہ کے پتہ پر خط کئی مرتبہ بذریعہ ڈاک بھیجا جوکہ واپس آجاتا ہے اور جب دفتری عملہ براہ راست اُس پتہ پر پہنچتا ہے تو وہاں موجود افراد نے بتاتے ہیں کہ یہ خاتون یہاں سے گھر چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔

تحقیقاتی کمیٹی نے متعلقہ شعبہ تحقیق کے تمام ذمہ داران سے فرداً فرداً انکوائری بھی کی ہے جس کے خاطرخواہ نتائج نہیں برآمد ہوسکے ہیں۔ لیکن اس بات کا ثبوت مل چکا ہے کہ ڈاکٹر عامر طاسین کا مقالہ وزارت کو پہلے موصول ہوا تھا اور کسی دفتری عملے نے مقالہ غائب کرکے  آسیہ اکرام کے نام سے دو ہفتے بعد جمع کرایا گیا تھا۔

وزارت ہی کے ذرائع کا کہنا کہ اس  معاملے میں وزارت ہی کے افسران اور نیچے کا عملہ ملوث ہے لیکن  ذمہ دار افسران نے اپنی نوکری بچانے کی خاطر آسیہ اکرام کا ریکارڈ غائب کردیا ہے۔ جس کے باعث انکوائری کمیٹی کو مشکلات کا سامنا ہے۔

تحقیقاتی کمیٹی نے اس بات پر حیرانگی ظاہر کی ایک ہی مقالہ جب ڈاکٹر عامر طاسین اور اس کے بعد آسیہ اکرام کے نام سے ریکارڈ پر آگیا اُس کے بعد نہ تو اسکروٹنی کمیٹی نے چیک کیا اور نہ ہی ایپکس کمیٹی نے  دیکھنا گوارا کیا اور ڈاکٹر عامر طاسین کے مقالے کو مرد حضرات جب کہ آسیہ اکرام کے نام سے مقالہ کو خواتین کیٹگری کے مقابلہ کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ اس کے بعد وزارت مذہبی امور کی مقالہ سیرت2019 میں بھی کسی  کمیٹی کے ذمہ دار اور پرنٹنگ کرنے سے قبل اور بعد میں   اس بات کو نوٹ کیا کہ ایک ہی مقالہ دو نام سے شامل ہورہاہے۔ متعلقہ شعبہ کے تمام سینئر جونئیر عملہ کی اس غیرسنجیدہ اور غفلت پر کمیٹی کے تمام ممبران کو بھی حیران کردیا ہے۔

کمیٹی کے سامنے ڈی جی مشاہد حسین نے  بھی آسیہ اکرام کے بارے میں  لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ 4 رکنی  تحقیقاتی کمیٹی کے افسران کو اب تک یہ بات سامنے آچکی ہے کہ اصل مقالہ ڈاکٹر عامر طاسین ہی کاتھا اور جوکہ کم وبیش دو ہفتے بعد آسیہ اکرام کے نام سے جمع ہوا تھا۔

معلومات کے مطابق آسیہ اکرام کا ریکارڈ غائب ہونا، فون نمبر بند ہونا  اور موجود پتہ جعلی ہونا معنی خیز ہے۔ تمام حقائق واضح ہونے کے باوجود وزارت مذہبی امور کی 4 رکنی کمیٹی آسیہ اکرام کے خلاف کسی بڑی قانونی کاروائی  کرنے میں ہچکچا رہی ہے۔ وزارت کی مزید بدنامی  کے ڈر سے بچنے کے لیے اس معاملے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزارت ہی کے ذرائع کے مطابق کمیٹی کا کام صرف اس معاملہ کی تحقیقات کرنا ہے اور رپورٹ سیکریٹری مذہی امور کے پاس جمع کرانا ہے۔ لیکن جب تک سیکریٹری مذہبی امور آسیہ اکرام کے خلاف قانونی چارہ جوئی  کا حکم  نہیں دیتے تب تک یہ معاملہ دب جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں : منشیات اسمگلنگ کیس،جج کی تعیناتی نہ ہونے پر راناثناءاللہ پرفردجرم عائد نہ ہو سکی

Related Posts