نظریئے کا سفر کتاب سے شرع نہیں ہوتا۔ کتاب اس کا دوسرا پڑاؤ ہے۔ اس سفر کا آغاز ہماری ذات سے ہوتا ہے۔ وہ ذات جو سرشت اور فطرت کے سافٹویئر سے لیس ہوتی ہے مگر ساتھ ہی نفس اور شیطان فطرت کو غلط راہ پر ڈالنے یعنی آپ کی ذات کو تباہ کرنے کے لئے مقابل کے طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی میں یہ مقابلہ ہوکر رہتا ہے اور اس کا آغاز عین بچپن میں ہوجاتا ہے۔
اس بے آواز مگر گھمسان کی جنگ میں آپ کو ایک شاندار رفیق کی ہمراہی بھی میسر ہوتی ہے۔ ایک ایسا رفیق جو نظر نہیں آتا مگر یہ قدم قدم پر آپ کو درست کی طرف متوجہ کرنے اور غلط پر متنبہ کرنے کا کام دن رات سر انجام دیتا ہے۔ آپ تھک جاتے ہیں مگر یہ نہیں تھکتا، آپ نا امید ہوجاتے ہیں مگر وہ نہیں ہوتا اور آپ شائد ہتھیار ڈالدیں مگر وہ نہیں ڈالتا۔ یہ آپ کے لاشعور سے ہی رشتہ نہیں رکھتا بلکہ آپ کے شعور سے بھی مستقل مخاطب رہتا ہے۔ یہ بے آواز بولتا ہے مگر پھر بھی اس کی گونج آپ کی پوری ذات میں پھیلتی اور سنائی دیتی ہے۔
رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں:
وارننگ کو دعوت نامہ سمجھنے والے