حضور اکرم ﷺ کا طریقۂ نصیحت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رسول اللہ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو راہِ راست پر رکھنے کیلئے بہت سی واضح نصیحتیں فرمائیں جن سے اگر ہم بھٹک جائیں تو گمراہ ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نبئ آخر الزمان ﷺ نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں۔ پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ، وہ حقوق کیا ہیں؟ فرمایا کہ جب تم اس سے ملو تو اسے سلام کرو، جب وہ تمہیں دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو، جب وہ تم سے نصیحت طلب کرے تو اسے اچھی نصیحت کرو، جب وہ چھینکے اور الحمد للہ کہے تو تم اس کا جواب دو (یعنی یرحمک اللہ کہو)، جب وہ بیمار ہو تو تم اس کی عیادت کرو اور جب وہ وفات پا جائے تو تم اس کے جنازے کے ساتھ جاؤ ـ(صحیح مسلم)۔

حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دوسرے کو مخلصانہ نصیحت کرنے کا حکم دیا اور سمجھایا کہ اس سے قوم میں بھلائی غالب آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن پاک میں اس کا ذکر فرمایا کہ (سب لوگ خسارے میں ہیں) سوائے ان کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی نصیحت کی۔(سورۃ العصر)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ ہم مل جل کر آگے بڑھ سکیں۔

مخلصانہ مشورے کی مثال قیمتی زیور کی سی ہے۔ ہمیں کسی کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کی بجائے اسے مخلصانہ نصیحت سے نوازنا چاہئے۔ انسان کو چاہئے کہ مخلص نصیحت یا مشورے کو تلاش کرے اور جب مخلصانہ نصیحت مل جائے تو اس پر نہ صرف عمل کرے بلکہ جب اس سے مشورہ مانگا جائے تو خود بھی مخلصانہ مشورے  دے اور اچھی نصیحت کرے۔

نصیحت کرنے کیلئے رسول اللہ ﷺ کے سکھائے ہوئے طریقہ کار کا خیال رکھنا ہوگا۔ جب بھی رسول اللہ ﷺ نصیحت فرماتے، اپنی انا درمیان میں نہ لاتے کیونکہ آپ ﷺ دوسروں کی فلاح و بہبود کیلئے فکر مند رہے۔ اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ مکہ مکرمہ میں رسول اکرم ﷺ کی بہت مخالفت ہوئی، الفاظ کا استعمال ہو یا عمل کا میدان، کفارِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ سے کوئی سخاوت یا نرمی نہیں برتی لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان سے صبر، مہربانی اور نرمی کا معاملہ فرمایا اور امید رکھی کہ آخر میں انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوجائے گا اور وہ انہیں اپنے بہترین مفاد میں نیکی پر آمادہ کرلیں گے۔ آنحضرت ﷺ مخالفین پر فتح پانا نہیں بلکہ انہیں جنت کا راستہ دکھانا چاہتے تھے۔

آج کل سنتِ نبوی کے برعکس اعمال دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ لوگ نصیحت کے نام پر مشورے تو دیتے ہیں لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو نیچا دکھایا جائے۔ نبئ مکرم ﷺ ایسا نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ جب کسی شخص کی اصلاح کا ارادہ فرماتے جو کوئی غلط بات کرگیا ہو تو آپ ﷺ اس کا نام لے کر ذکر نہیں فرماتے تھے بلکہ یوں کہتے کہ لوگوں کے ایک گروہ نے فلاں کام کیا یا کہا اور ایسا کیا ، کیونکہ آپ ﷺ کسی کو بے عزت نہیں کرنا چاہتے تھے اور آپ ﷺ کی نصیحت مخصوص شخص یا گروہ تک مؤثر انداز میں پہنچ جاتی تھی۔

مزید برآں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اکیلے میں اپنے بھائی کو نصیحت کرے، وہ اس سے مخلص ہے اور اس کی ساکھ کی حفاظت کرتا ہے لیکن جس نے سر عام نصیحت کی، اس نے تذلیل کی اور دھوکہ دیا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ مسلمان ایک خاندان کی مانند ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کا دشمنوں کی طرح سر عام سامنا نہیں کرنا چاہئے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے دشمنوں کو بھی ذلیل نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ نبئ اکرم ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے ظالم کے حوالے کرتا ہے اور نہ ہی اسے ذلیل کرتا ہے۔

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ گھوڑوں کا بوجھ گدھوں پر نہیں لادا جاتا۔ رسول اللہ لوگوں کی صلاحیت اور مزاج سمجھ کر انہیں نصیحت فرماتے تھے۔ نبئ اکرم ﷺ لوگوں کو مذہب سے دور بھاگتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو علم سکھانے میں زیادہ سختی نہیں فرمائی تاکہ وہ بے زاری محسوس نہ کریں (صحیح بخاری 68 میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر وقت خطبات اور علمی باتوں سے گریز فرماتے تھے تاکہ لوگ پریشان نہ ہوں)۔

جب رسول اللہ ﷺ کسی سے ذاتی طور پر گفتگو فرماتے تو جس برائی کی اصلاح مقصود ہوتی، اس وقت تک اس کا ذکر نہ فرماتے جب تک کہ اس شخص کے متعلق کوئی اچھی بات نہ کرتے۔ جب نصیحت فرماتے تو آپ کا جسمانی رکھ رکھاؤ پیار بھرا اور شفیق ہوتا۔ بہت سی احادیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ گفتگو کے دوران اپنا ہاتھ کندھے پر رکھ دیا کرتے۔ غور کریں تو ایسے لوگ کتنا چھا محسوس کرتے ہوں گے جب رسول اللہ جیسے محسن انسانیت ﷺ ان کے کندھے پر ہاتھ رکھتے، مسکراتے اور ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوں گے اور انہیں بتاتے ہوں گے کہ انہیں کیا سننے کی ضرورت ہے، رسول اللہ ﷺ کی نصیحت ہر دور میں صحابہ کیلئے سکون آور اور اطمینان بخش ثابت ہوئی۔

دوسروں کو نصیحت کرنا اپنی، اپنے خاندان اور معاشرے کی بہتری کیلئے بہت ضروری ہے تاہم نصیحت سے قبل اس کی اہمیت، فضیلت اور آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا اہم ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی خاطر دوسروں کو نصیحت کرنا کارِ ثواب ہے جس کا اجر ملتا ہے۔ اپنے آپ کو بہتر بنانا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ 

Related Posts