ہانگ کانگ میں احتجاج اور چین امریکا تعلقات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہانگ کانگ میں پانچ ماہ سے جاری احتجاج کی وجہ سے کاروبار کوتباہ کن دھچکا لگا ہے جس کی وجہ سے سیاح ہانگ کانگ سے دور ہو رہے ہیں جبکہ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔چین کے سخت موقف کے باعث احتجاج ختم ہونے کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔

یاد رہے کہ ہانگ کانگ میں احتجاج کا سلسلہ جون میں سرزمین چین کو ملزمان کی حوالگی کی اجازت دینے کے منصوبے پر شروع ہوا تھا ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو نے رواں سال جون میں پارلیمان میں قانونی بل پیش کیا تھا جس کے تحت ہانگ کانگ میں سنگین جرائم کے مرتکب ملزمان کا ٹرائل چین میں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

برطانیہ کی سابق نو آبادی ہانگ کانگ 1997 میں چین کو واپس کیے جانے کے بعد ‘ایک ملک، دو نظام کے اصول کے تحت ایک نیم خود مختار ریاست بن گئی تھی،ہانگ کانگ کے اپنے قوانین ہیں اور اس کے رہائشیوں کو وہ شہری آزادی حاصل ہے جو عام چینی باشندوں کو حاصل نہیں ہے۔

چین کی جانب سے عوامی حقوق کو مسترد کرنے کی کوششوں کیخلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے جو پولیس اور کارکنوں کے آپس میں تصادم کے بعد تیزی سے پرتشدد مظاہروں میں بدل گئے۔ پولیس نے لوگوں پر براہ راست گولیاں چلائیں ۔بالآخر ستمبر میں بل واپس لیا گیا تھا لیکن ہانگ کانگ میں مظاہروں کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کی حمایت ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین پر مظاہرین کے خلاف کسی بھی کریک ڈاؤن کی صورت میں پابندیوں سے گریز نہیں کرینگے۔

اس سے قبل اس سے قبل امریکی سینیٹ نے ہانگ کانگ میں انسانی حقوق اور جمہوریت کی حمایت میں متفقہ طور پر قانون سازی کی منظوری دی اور اس کی خصوصی اقتصادی حیثیت ختم کرنے کے بارے میں بھی خبردار کیاجبکہ چینی صدر نے مخالفین کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو تقسیم کرنے کی کسی بھی کوشش کا انجام ’جسموں کے چیتھڑوں اور ہڈیوں کے چکنا چور ہونے کی صورت‘ میں نکلے گا۔

انھوں نے کسی خاص خطے کا ذکر نہیں کیا مگر ان کا یہ بیان ہانگ کانگ کو تنبیہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جہاں کئی ماہ سے بیجنگ مخالف مظاہرے جاری ہیں۔

لندن میں چینی سفیر کاکہنا ہے کہ چند مغربی ممالک نے کھلم کھلا انتہائی تشدد پسند مظاہرین کی حمایت کی، امریکا کے ایوان نمائندگان نے واضح طور پر ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت کے لیے نام نہاد ہانگ کانگ ہیومن رائٹس اور ڈیموکریسی ایکٹ کا معاملہ اٹھایا جو چین کے اندرونی معاملات ہیں۔

امریکا اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے خاتمے کے حوالے سے معاہدہ جلد ہی منظرعام پر آ سکتا ہے، تاہم دو بڑی عالمی طاقتوں کے مابین یہ لڑائی تجارت سے کہیں آگے کی بات ہے اور اس کا محور تجارت کے علاوہ معاشیات، دفاع، ثقافت اور ٹیکنالوجی بھی ہے۔

امریکا چین کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرناچاہتا ہے لیکن ہانگ کانگ میں احتجاج کو بھی ہوا دے رہا ہے، امریکا ایک طرف تجارتی معاہدے کی طرف بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب ہانگ کانگ میں چین کیخلاف جاری احتجاج کی بھی حمایت کررہاہے۔

امریکا کا کہنا ہے کہ ہم ابھی بھی سرد جنگ میں ہیں تاہم چین کے ساتھ معاملہ سوویت یونین کی نہج پر نہیں پہنچا۔اگر امریکا اور چین کے درمیان جاری کشمکش جاری رہی تو ناصرف ان دونوں سپرپاوربلکہ پوری دنیا کو نقصان ہوگا۔

Related Posts