کئی مقامی صحافی، بین الاقوامی صحافیوں اور متعلقہ شخصیات کی جانب سے کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل سے متعلق کینیا پولیس کے دعووں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
ارشد شریف اگست کے مہینے میں غداری کے مقدمے کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں گولی لگنے کے بعد انتقال کرگئے جس کی تصدیق اُن کی اہلیہ کی جانب سے بھی کی گئی ۔ یہاں پر اُن کے قتل کے حوالے سے کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات جاننا بہت ضروری ہیں:
1. کیا پولیس نے گاڑی کو روکنے کی کوشش کی اور کیا گاڑی میں سوار لوگوں نے احکامات کی خلاف ورزی کی؟
2. پولیس نے گاڑی پر گولی کیوں چلائی جبکہ گاڑی میں سوار لوگوں کی جانب سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی تھی؟
3. پولیس کو اگر انھیں روکنا ہی تھا تو اُس نے گاڑی کے ٹائروں پر گولی کیوں نہیں چلائی؟
4. پولیس نے ڈرائیور کو نہیں بلکہ مسافر کو نشانہ کیوں بنایا؟
5. پولیس نے گولی کیوں چلائی جبکہ گاڑی میں ایک بچہ بھی موجود تھا؟
6. اگر اس سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت عام تھی تو پھر گاڑی کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟
7. چوری ہونے والی گاڑی کا رنگ اور ماڈل کیا تھا؟
کینین پولیس کا کیا کہنا ہے؟
کینین میڈیا کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ارشد شریف کو اتوار کی رات نیروبی -مگادی ہائی وے پر “غلط شناخت” کے معاملے پر حکام نے سر میں گولی ماردی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ارشد شریف اوراُن کے ڈرائیور نے مبینہ طور پر سڑک بلاک کی خلاف ورزی کی، اُس راستے پر پولیس گاڑیوں کی تلاشی لے رہی تھی جس دوران پولیس نے ایک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی جس میں ایک بچے کو یرغمال بنایا گیا تھا جو کہ نہیں رکی اور پھر اُس گاڑی کے تعاقب میں ارشد شریف کی گاڑی پر غلطی سے گولی چلادی۔
فائرنگ کے نتیجے میں صحافی ہلاک جبکہ ڈرائیور زخمی ہوگیا اور کاراُلٹ گئی۔