یونیورسٹیز میں طالبات کو مسلسل ہراساں کیے جانے اور صوبائی حکام کی جانب سے خواتین پر تشدد کے واقعات کے خلاف کارروائی میں ناکامی کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے واقعات انتہائی تشویشناک ہیں۔
سندھ کی جامعات میں طالبات کو ہراساں ، تشدد ، بلیک میل کرنے اور مبینہ طور پر یہاں تک کہ طالبات کی ہلاکت کے واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
نواب شاہ میں ہاؤس آفیسر پروین رند کے حالیہ کیس نے ایک بار پھر تعلیمی اداروں میں اس طرح کے مظالم کا پردہ چاک کر دیا ہے۔پروین رند سے قبل نوشین کاظمی اور نمرتا کماری کے ایسے ہی کیسز سامنے آئے تھے لیکن کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور موت کو خودکشی قرار دیا گیا۔
نوشین کاظمی چند ماہ قبل اپنے کمرے میں مردہ پائی گئی تھی اور نمرتا کماری بھی دو سال قبل ہلاک ہوئی تھیں ۔ دونوں کے کیسز میں ڈی این اے رپورٹ میں دونوں لڑکیوں کے نمونے ایک ہی شخص سے میچ کرگئے ہیں جس سے یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ ان واقعات میں ایک ہی ملزم ذمہ دار ہو سکتا ہے۔
رپورٹ میں پیشرفت کے باوجود مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایک اور واقعے میں سندھ کی دو یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کو طالبات کوہراساں کرنے اور تشدد کے الزامات پر جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
صوبے میں خواندگی کی شرح پہلے ہی کم ہے جبکہ لڑکیوں کے لیے مواقع بھی مسدود ہیںایسے میں بڑھتی ہوئی ہراسانی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ شکنی کرے گی، انہیں گھر میں رہنے پر مجبور کر دے گی۔ ایک کالج یا یونیورسٹی کو ایک سازگار ماحول فراہم کرنا چاہیے جہاں وہ محفوظ ہوں اور انہیں ذاتی اور تعلیمی طور پر ترقی کرنے کا موقع دیا جائے۔
ایذا رسانی اور تشدد کے واقعات ان پر منفی اثر ڈالیں گے۔حکومت پر لازم ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسانی کے ذمہ داروں کو تلاش کرے۔ تمام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے سربراہان کو کیمپس میں ہونے والے اس طرح کے واقعات کے خلاف عدم برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہشمند طالبات کے لیے اداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہراسانی میں ملوث عناصر سے سختی سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔