غزہ کے وسیع علاقوں کو تباہ کرنے اور ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلانے والی چھ ہفتوں سے زیادہ کی لڑائی کے بعد، اسرائیل اور فلسطینی گروپ حماس نے چار روزہ جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے۔ 7 اکتوبر سے جب حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے 1,200 افراد کو ہلاک کردیا تھا، اسرائیلی فوج مسلسل غزہ پر فضائی اور زمینی حملے کررہی ہے، جس میں 14,000 سے زیادہ فلسطینی لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ قطر کی ثالثی سے جنگ بندی تک پہنچنے میں مدد ملی ہے۔
قطر کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت حماس نے 150 فلسطینیوں کی رہائی، فوجی آپریشن کی معطلی اور امدادی کوششوں کے بدلے 50 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر اتفاق کیا۔اس معاملے کو اگرچہ ایک مثبت قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے، مگر یہ جاری بحران کا جامع حل فراہم کرنے میں ناکام ہے۔
حماس اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ نے امن کی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی عرب ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی رابطہ ترک کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دشمنی نے بین الاقوامی سماجی ہم آہنگی کو بھی متاثر کیا ہے، جس میں صیہونیت مخالف جذبات سوشل میڈیا پر عروج پر ہیں۔ دائمی امن کے لیے طویل مدتی مذاکرات کی سہولت کے لیے ہتھیاروں کو خاموش کرتے ہوئے موجودہ جنگ بندی کو ایک پائیدار حل میں تبدیل ہونا چاہیے۔
گزشتہ 45 دنوں کے دوران متاثر ہونے والے 10 لاکھ سے زائد غزہ کے باشندوں کی حالت زار کو عارضی اقدامات کے ذریعے مناسب طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ان کے گھر، اسکول، ہسپتال اور مساجد کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں،اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کا احتساب بہت ضروری ہے۔ جب کہ ایک عارضی جنگ بندی میں خوش ہونے کی کوئی خاص وجہ نہیں، کیونکہ بہت زیادہ جانی نقصان ہوچکا ہے، عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو تل ابیب پر جاری تشدد کے خاتمے اور بحران کے حل کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔