طیارہ حادثہ اور جعلی لائسنس کا معاملہ حل ہونا چاہیے

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز نے 426 میں سے 150 پائلٹوں کے لائسنس کو مشکوک قرار دیدیا ہے، پی آئی اے کے اس اقدام سے انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے کیونکہ یہ تمام مشکوک لائسنس والے پائلٹس درجنوں پروازیں  آپریٹ کرچکے ہیں جس کی وجہ سے فلائٹ سیفٹی سے متعلق احتیاطی تدابیر کے حوالے سے مزید خدشات کو جنم دیا ہے۔

وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور ملک میں 40فیصد پائلٹوں کے پاس مشکوک لائسنس موجود ہیں اور انہوں نے پائلٹوں کی تربیت پر بھی سوال اٹھا ہے،بہت سارے پائلٹ بغیر کسی امتحانات میں شریک ہوئے لائسنس حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں کل 860 میں سے 262 پائلٹوں کے پاس جعلی لائسنس ہیں اور انھیں فوری طور پر ذمہ داریوں سے علیحدہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

وفاقی وزیر ہوا بازی کے انکشافات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس مجرمانہ فعل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہئے اور ان کے خلاف مقدمات درج کرنے چاہئیں  تاکہ وہ آئندہ کوئی طیارہ اڑانے اور کسی کی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے باز رہیں، یہ جعلی لائسنس یافتہ پائلٹ حقیقی پائلٹس کا حق چھیننے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے کے بدلے بڑی بڑ ی مراعات سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔

پی آئی اے کے پائلٹوں کے اسکینڈلز بھی کوئی نئی بات نہیں ہے، 2013 میں پی آئی اے کے پائلٹ کو نشے میں دھت ہونے کے سبب برطانیہ میں جیل بھیج دیا گیا تھا ، اس سے پہلے وہ جہاز میں 156 مسافروں کو لیکر طویل فاصلہ طے کرکے برطانیہ پہنچا تھا۔

پائلٹ کو بریڈ فورڈ میں کاک پٹ سے گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے خون میں اجازت سے 3 گنا زیادہ شراب پائی گئی تھی۔قومی ایئر لائن نے عالمی سطح پر شرمندگی کے باوجود ذمہ دار پائلٹ کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔

مئی 2017 میں لندن جانے والے پی آئی اے کے طیارے کی بزنس کلاس میں ایک پائلٹ کئی گھنٹوں تک سوتا ہوا پکڑا گیا تھا اوراس دوران ایک ایک ناتجربہ کار ٹرینی افسر نے طیارے کو سنبھالا۔ ایسے متعدد واقعات میں پی آئی اے کیلئے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کرتے رہے ہیں۔

کراچی میں عید الفطر سے قبل رہائشی آبادی پر گرکر تباہ ہونے والے پی آئی اے کے طیارے کو حادثے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ میں بنیادی طور پر پائلٹ کو واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

وزیر ہوا بازی نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ پائلٹ دوران پرواز شریک پائلٹ سے کورونا وائرس کے بارے میں بات چیت کر رہا تھا کیونکہ اس کے اہل خانہ بھی کورونا سے متاثر ہوئے تھے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جعلی لائسنس والے پائلٹس کے خلاف کارروائی کیلئے نوٹس لیتے ہوئے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور قومی ایئر لائنز سے جواب طلب کرلیا ہے۔

عین ممکن ہے کہ اس طرح کے پائلٹ نجی ایئرلائنوں کے لئے بھی کام کر رہے ہوں اور ان کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہئے۔ اس واقعہ کو ایک بنیاد بناکر اس مسئلے کی پیروی کی جانی چاہئے اور ذمہ داروں کے خلاف لازمی کارروائی کی جانی چاہئے۔

Related Posts