سمندری کرایوں میں اضافہ، کینو کی ایکسپورٹ 35فیصد کم رہنے کا خدشہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Export of Kinnow is likely to be 35% less than previous Year

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

کراچی:سمندری کرایوں میں اضافہ اور موسمی اثرات کی وجہ سے پیداوار میں کمی پاکستان سے کینو کی ایکسپورٹ کے لیے رکاوٹ بن گئے۔ کینو کے ایکسپورٹرز بے یقینی کا شکار، رواں سیزن کینو کی ایکسپورٹ گزشتہ سال سے 35فیصد کم رہنے کا خدشہ پیدا ہوگیا، ایکسپورٹ تین لاکھ ٹن تک محدور رہنے کا امکان ہے۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق رواں سیزن کینو کے ایکسپورٹرز بے یقینی کا شکار ہیں اور یکم دسمبر سے شروع ہونیو الے ایکسپورٹ سیزن کے لیے تاحال بڑے پیمانے پر تیاریاں نہیں کی گئیں۔

سرگودھا میں اکا دکا فیکٹریاں ایکسپورٹ کی تیار ی کررہی ہیں۔ کینو کی ایکسپورٹ کو سمندری کرایوں میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ کینو کی ایکسپورٹ گزشتہ سال ساڑھے تین لاکھ ٹن کے ہدف کے مقابلے میں ساڑھے چارلاکھ ٹن رہی تھی۔

رواں سال کینو کی ایکسپورٹ گزشتہ سال سے 35فیصد کمی سے 3لاکھ ٹن تک رہنے کا امکان ہے۔سمندری کرایوں کے بحران کی وجہ سے روس، کینیڈا، یوکرین، انڈونیشیا اور فلپائن کی منڈیوں میں پاکستانی کینو کی ایکسپورٹ زیادہ متاثر ہوگی ان ملکوں میں پاکستان سے 50فیصد کینو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

وحید احمد کے مطابق پاکستانی کینو کی اہم منڈی روس کے لیے سمندری کرایے جو گزشتہ سیزن 2500سے 3000ڈالر تھا اب بڑھ کر 7000ڈالر فی کنٹینرز تک پہنچ چکا ہے اسی طرح فلپائن، اندونیشیاکا کرایہ 2000ڈالر سے بڑھ کر 4000سے 5000ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

سمندری کرایوں میں غیرمعمولی اضافہ کے ساتھ شپنگ کمپنیوں کا شیڈول بھی مقرر نہیں ہے۔ جلد تلف ہونیو الے پھلوں کی کھپ بروقت اپنی منزل تک پہنچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے ایسے حالات میں ایکسپورٹ کی لاگت کے ساتھ خدشات بھی بڑھ گئے ہیں جس سے پاکستان کی کینو کی ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ روس کی مارکیٹ میں پاکستانی کینو مراکش اور ترکی کے کینو سے سستا ہونے کی وجہ سے فروخت ہوتا ہے۔ پاکستانی کینو کا 10کلو کا کاٹن ترکی اور مراکش سے 5سے 6ڈالرتک کم ہوتا ہے تاہم سمندری کرایے بڑھنے سے پاکستانی کینو کی قیمت مراکش اور ترکی کے کینو کے برابر ہوجائیگی ایسی صورت میں روسی مارکیٹ میں پاکستانی کینو کے لیے اپنی جگہ برقرار رکھنا دشوار ہوجائے گا۔دوسری جانب ترکی کا کینو زمینی اور سمندری راستوں سے بھی روسی مارکیٹ تک پہنچ سکتا ہے جس سے پاکستان کے لیے روسی مارکیٹ کے چیلنجز مزید بڑھ سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:اسٹیٹ بینک سے قرض لینے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا، اسماعیل ستار

وحید احمد نے کہا کہ ان حالات میں ایران اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے روس تک کینو کی زمینی راستے سے ایکسپورٹ ایک بہتر متبادل ہوسکتا ہے تاہم ٹی آئی آر کنوینشن کے تحت پاکستان سے زمینی راستے سے تجارتی سامان کی ترسیل کاآغاز کے باوجود زمینی راستے سے ترسیل کی لاگت بھی سمندری کرایوں کے برابر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کے کینو کی ایک اچھی مارکیٹ ہے تاہم ایرانی حکام کی جانب سے امپورٹ پرمٹ جاری نہ کیے جانے کی وجہ سے یہ اہم مارکیٹ 10سال سے بند پڑی ہے۔ گزشتہ سال ایران نے محدود عرصہ کیلیے امپورٹ پرمٹ جاری کیے تھے جو اس سال تاحال جاری نہ ہوسکے۔

سمندری کرایوں میں اضافہ کے ساتھ پاکستان میں کینو کی پیداواری لاگت اور پیکجنگ کے ساتھ ٹرانسپورٹ کی لاگت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات، بجلی گیس کے نرخوں میں اضافہ اور زرعی ان پٹس مہنگے ہونے سے کینو کی پیداوار اور ترسیل کی لاگت بڑھ گئی ہے۔ کینو کی پیکنگ کا میٹریل 40فیصد تک مہنگا ہوگیا ہے۔

ان حالات میں کینو ایکسپورٹ کرنے والے بے یقینی کا شکار ہیں اور سرگودھا میں اب تک کچھ فیکٹریاں کھلی ہیں کچھ نہیں کھل سکیں 125ارب روپے کی انڈسٹری بے یقینی کا شکار ہے۔ادھر کینو کے پرانے باغات موسمی اثرات کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہیں رواں سیزن کینو کی پیداوار بھی 30فیصد کم رہنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں 24لاکھ ٹن کینو پیدا ہوتا ہے جبکہ رواں سال پیداوار 17لاکھ ٹن تک محدود رہنے کا امکان ہے۔

وحید احمد نے کہا کہ کینو کی صنعت پاکستان میں چار لاکھ افراد کے لیے براہ راست روزگار کا ذریعہ ہے۔ کینو کی ایکسپورٹ میں کمی سے ایکسپورٹرز کے ساتھ کینو کے باغات کے مالکان اور باغات میں کام کرنے والے افراد کے ساتھ ترسیل کرنے والی ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی متاثر ہوں گی۔ کینو کی صنعت کو بحران سے نکالنے کے لیے زمینی راستے سے ایکسپورٹ پر زر معاونت فراہم کی جائے تو اس نقصان میں کافی حد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔

اس کے ساتھ ایران کے ساتھ بات چیت کرکے ایران کی مارکیٹ کھلوائی جائے تو 80ہزار ٹن کینو ایران ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے جس سے دیگر منڈیوں میں کمی کے اثرات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ وحید احمد نے پنجاب حکومت پر سٹرس کی نئی ورائٹیز اگانے پر توجہ دئیے جانے پر زور دیا ۔ کسانوں کی لاگت کو کم کرنے کے لیے کھاد، ادویات اور دیگر ان پٹس پر زرمعاونت فراہم کی جائے۔

Related Posts