آئی ایم ایف سے لین دین

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام 1947 میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اس عزم کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ قوم اس ملک کو اسلام کی تجربہ گاہ بنائے گی تاہم یہ ملک تجربہ گاہ تو بنا، لیکن اسلام کی نہیں۔

ہمارا وطن اسلام کی تجربہ گاہ تو تب بنتا جب ہم یہاں اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے۔ اسلام کہتا ہے کہ سودی لین دین اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مترادف ہے اور ہماری معیشت ہی اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتی جب تک کہ ہم سودی لین دین کے سب سے بڑے ادارے یعنی آئی ایم ایف سے ڈیل نہ کرلیں۔

گزشتہ روز بھی یہ خبر سامنے آئی کہ وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کے مابین گردشی قرض کنٹرول کرنے کا پلان طے کر لیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف نے خبردار بھی کیا کہ اگر شرائط پر عملدرآمد نہ کیا تو آئندہ مزید سخت شرائط لاگو کی جائیں گی۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین 9 ماہ کیلئے 3ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کے تحت آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 1 اعشاریہ 1ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دینے کیلئے کل میٹنگ بھی کی۔

دوسری جانب امریکی جریدے بلوم برگ نے قرار دیا کہ پاکستان کی ادائیگیاں اس کے زرِ مبادلہ ذخائر سے 6گنا زیادہ ہیں۔ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہوچکا جس پر پاکستان کے ڈالر بانڈ میں 27فیصد اضافہ ہوا اور پاکستان کی فنڈنگ بھی بہتر ہوئی۔

سعودی عرب سے 2 ارب ڈالر کے فنڈز موصول ہونے پر ڈالر کو ریورس گیئر لگا۔ گزشتہ روز انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 1 روپے 41 پیسے کی کمی آئی اور اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر کی قدر 2روپے تک گر گئی اور 280روپے پر آگئی۔

اسی دوران وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کے مابین ایکسٹرنل فنانسنگ کا معاملہ بھی طے پایا۔ وزارتِ خزانہ نے بیان دیا کہ آئی ایم ایف نے ہمارے بھیجے گئے 8.5ارب ڈالرز کی فنانسنگ گیپ کا منصوبہ تسلیم کر لیا ہے۔

نجی ٹی وی ویب سائٹ نے وزارتِ خزانہ ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے فنانسنگ حاصل کرنی ہے۔چین سے بھی 3.5ارب ڈالر کی فنانسنگ حاصل کی جائے گی۔ 

دراصل اس تمام تر فنانسنگ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ پاکستان اس وقت اتنا مقروض ہوچکا ہے کہ اسے قرض کی ادائیگی کیلئے بھی دوست ممالک اور آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے پڑ رہے ہیں، بقول مرزا غالبؔ:

قرض کی پیتے تھے مے، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ ڈکٹیٹر کہلانے والے جنرل مشرف کے دور میں تو پاکستان کی معاشی صورتحال اتنی بری نہیں تھی بلکہ ہم نے آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بجائے بہت حد تک خود کفالت کی منزل بھی حاصل کر لی تھی، تاہم پھر جمہوریت آگئی۔

ضروری ہے کہ قوم آج سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ سوچے کہ جمہوریت میں آخر ایسے کیا مسائل ہیں جنہیں حل کرکے آئی ایم ایف جیسے گلے کے پھندے سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ اگر ہم نے اس مسئلے کا حل آج نہ ڈھونڈا تو ہماری طرح ہماری نسلیں بھی مقروض ہی رہیں گی۔ 

 

Related Posts