اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی آخری الہامی کتاب میں بتاتا ہے کہ خالقِ حقیقی نے انسانوں کو لامتناہی جدوجہد میں مصروف رہنے کے لیے پیدا کیا، قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ بےشک ہم نے انسان کو مسلسل جدوجہد میں پیدا کیا ہے۔(سورۃ البلد، آیت نمبر 4) ۔ کبھی مطمئن نہ ہونا اور ہمیشہ کسی نئی چیز کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ دنیا کے معاملات کے بارے میں مسلسل اضطراب اور غم میں مبتلا رہتا ہے۔
ہمیں یہ سیکھنا چاہیے کہ پریشانی اور غم سے کیسے نمٹا جائے کیونکہ یہ زندگی کبھی ذہنی تناؤ اور بے چینی سے پاک نہیں ہوگی۔ ہم صرف اس وقت سکون اور راحت حاصل کریں گے جب ہم ان شاء اللہ جنت میں داخل ہوں گے، جو صحیح معنوں میں دارالسلام یا ہم سب کے لیے امن کا ٹھکانہ ہوگا۔
ذہنی تناؤ اور غم سے نمٹنے کے لیے قرآن و سنت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ ہر چیز اللہ کے اختیار میں ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت پر یقین اضطراب اور غم سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط ترین دوا ہے۔ اس دنیا میں ہمارے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے کہ آپ نے قریش کے حملوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ غار ثور میں پناہ مانگی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خوفزدہ ہوئے، اس صورتحال کا ذکر قرآن میں کچھ اس طرح کیا گیا ہے کہ “اگر تم رسول کی مدد نہ کرو گے تو اس کی اللہ نے مدد کی ہے جس وقت اسے کافروں نے نکالا تھا کہ وہ دو میں سے دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا تو غم نہ کھا بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
پھر اللہ نے اپنی طرف سے اس پر تسکین اتاری اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں جنہیں تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کی بات کو پست کر دیا، اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔” (سورۃ التوبہ، آیت40)
سلمان رشید کے دیگر کالمز پڑھیں:
حضرت ذوالقرنینؑ کی زندگی سے سبق