سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں حکام نے کانگو وائرس سے ایک شخص کی موت کے بعد اسپتالوں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے جب کہ 11 دیگر افراد بھی اس بیماری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر شکر اللہ لانگو کو کانگو وائرس کا شکار ہونے کے بعد بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بذریعہ سڑک آغا خان اسپتال کراچی منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم، اتوار کو پہنچنے پر ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔
کانگو وائرس، ایک وائرل بیماری ہے، جو کیڑے کے کاٹنے یا متاثرہ جانوروں کے خون سے رابطے کے ذریعے انسانوں میں پھیلتی ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے کچھ حصوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں، پچھلے کئی سالوں سے کانگو وائرس کے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ اس سال مہلک وائرس سے پہلی ہلاکت 7 مئی کو سامنے آئی۔بیماری کی تازہ ترین لہر کا پتہ 3 نومبر چلا،جب Sandeman Hospitalکے انتہائی نگہداشت یونٹ (ICU) میں ڈیوٹی ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور اٹینڈنٹ سمیت 112 افراد متاثر ہوئے۔
بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے 44 مریضوں کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔اس وقت آغا خان اسپتال کراچی میں دو خواتین سمیت کانگو وائرس کے 11 مشتبہ مریض داخل ہیں۔ آغا خان اسپتال کے ترجمان شبیر عالم نے بتایا کہ اسپتال میں کانگو وائرس کی علامات والے 9 مریض لائے گئے تھے۔
ایڈوائزری کے ذریعے محکمہ صحت نے کانگو وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی۔محکمہ صحت نے کراچی کے اسپتالوں کے لیے ریڈ الرٹ بھی جاری کیا اور کانگو وائرس کے حوالے سے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (SOPs) جاری کیا۔ کانگو وائرس کی وباء سے نمٹنے کے لیے حکام کو فوری طور پر کام کرنا چاہیے ورنہ شہر میں صورتحال کووڈ اور ڈینگی کی وباء کی طرح بدتر ہو سکتی ہے۔