پشاور:آج سے آٹھ برس قبل پشاور کے آل سینٹس چرچ میں اتوار کی عبادت کے بعد گھروں کو لوٹنے کے لیے نکلنے والے مسیحیوں پر دو خودکش حملہ آوروں نے قیامت ڈھا دی تھی۔ ان دو خودکش حملوں میں کم از کم 78 مسیحی عبادت گزار شہید ہوے اور سو سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے۔
چرچ انتظامیہ کے مطابق یہ کسی بھی چرچ پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ تھا اس لیے اس چرچ کو اب ’شہدا کے چرچ‘ کا نام دیا گیا ہے۔اس 138 سال پرانے چرچ پر ہونے والے دو خودکش حملوں کی برسی کے موقع پر مذہبی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے۔
چرچ انتظامیہ کے مطابق سنہ 2013 میں ہونے والے ان دو خودکش حملوں کے دن تقریباً چھ سو افراد چرچ میں موجود تھے جو مذہبی دعا ختم ہونے کے بعد واپس نکلنے سے پہلے وہاں تقسیم ہونے والا کھانا لینے لگے تھے جس وقت یہ دو دھماکے ہوئے۔
ان دھماکوں کے نتیجے میں موقع پر ہی ہلاک ہونے والوں میں 34 خواتین اور سات بچے بھی شامل تھے جبکہ ان حملوں میں چرچ کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔
پادری شہزاد مراد کے مطابق سنہ 2013 حملوں کے بعد مقامی آبادی نے عبادت کے لیے پشاور چھاؤنی کے کیتھڈرل چرچ میں انتہائی بہترین انتظامات کر کے مشکلات میں آسانی کی۔
وہ بتاتے ہیں ’سوئم سے ایک دن قبل گیٹ کے قریب ایک شخص کھڑا تھا جس نے مجھ سے پوچھا کہ سوئم میں کتنے لوگ شریک ہوں گے تو میں نے جواب دیا کہ چھ ہزار کے قریب لوگ ہوں گے۔‘
’اس نے کہا ہمیں اس تقریب کے انتظامات کرنے دیں اور ہمارے ہاں کہنے پر انھوں نے سب کچھ کیا۔ نہ صرف حاضرین کے لیے کرسیوں اور پانی کا بندوبست کیا بلکہ ہمارے شرکا کو لنچ باکس بھی دیے۔‘
ان دو خود کش حملوں میں اپنی والدہ کو کھو دینے والی نرسنگ کالج پشاور کی پرنسپل ناہید ناز کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس دن اپنی والدہ کو بہت روکا کہ اگلے اتوار کو مل کر عبادت میں چلیں گے لیکن وہ نہیں مانیں اور ان حملوں میں ہلاک ہو گئیں۔
‘میری بہن آج سے دو سال پہلے انھی چھروں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں جو انھیں اس دن کے دھماکوں میں لگے تھے۔‘
ناہید ناز کہتی ہیں کہ اس دن کی سب سے دردناک بات جو انھیں یاد ہے وہ یہ تھی کہ ’ہسپتال میں لوگ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ساتھ بوکھلاہٹ میں بعض زخمیوں کو بھی تابوتوں میں ڈال رہے تھے‘۔
اس دن چرچ میں زخمی ہونے والے گورنمنٹ ہائی سکول بادیزئی کے پرنسپل شہزاد اقبال کہتے ہیں کہ ان حملوں نے کئی حوالوں سے ان کی زندگی بدل دی۔
ان کے سامنے دھماکے میں خواتین کے کپڑے پھٹ گئے تو چرچ کے سامنے دکانوں سے مسلمان دکاندار نئے کپڑوں کے تھان لے کر آگئے اور ان عورتوں کے جسموں کو ڈھانپ دیا۔
گورنمنٹ ہائی سکول بادیزئی کے پرنسپل شہزاد اقبال کہتے ہیں کہ ان حملوں نے کئی حوالوں سے ان کی زندگی بدل دی
اس دن اپنی اکلوتی بیٹی سے محروم ہونے والی واپڈا آفس کی یاسمین یوسف کہتی ہیں کہ اس دن ان کے بھائی کے ہاں تین بیٹیوں کے بعد بیٹے کی پیدائش کی خوشی منائی جارہی تھی اس لیے وہ اپنے بھائی کے گھر رہیں۔
تاہم ان کی 11 سال کی بیٹی نے ضد کی کہ وہ تو ضرور چرچ جائے گی کیونکہ اگلے دن سکول میں ان کی استانی نے پوچھنا تھا کہ کل چرچ میں کیا سیکھا اور وہ جھوٹ نہیں بولنا چاہتی تھی۔
مزید پڑھیں:جبری مذہب تبدیلی روکنے پر اعتراض کیوں؟