امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اس بات کا واضح امکان ہے کہ روس بہت جلد یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے گوکہ امریکہ اور روس نے سفارت کاری کے دروازے کھلے رکھے ہیں لیکن سفارت کاری کی کامیابی ناممکنات میں بدلتی جارہی ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی یورپی ممالک ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی امریکہ کا ساتھ دے رہے ہیں، ماسوائے جرمنی کے، جس نے عسکری امداد سے اجتناب کیا ہے۔
نیٹو افواج نے یوکرین میں تعیناتی کے لیے 8500 فوجیوں کو الرٹ رکھا ہے اور ساتھ ہی امریکہ اور نیٹو ممالک نے اپنے شہریوں اور سفارت کاروں کے اہل خانہ کو ملک سے نکل جانے کو کہا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آنیوالے دنوں میں یہ جھگڑا شروع ہوجائیگا۔
کشیدگی میں شدت کے باعث امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن نے مثبت پیغام دینے کی کوشش کی کہ امریکہ روس پر فی الوقت مزید پابندیاں نہیں لگائے گا تاہم حالات پر کڑی نظر رکھے گااور مداخلت کی صورت میں امریکہ اس کا بھرپور جواب دیگا۔
روس نے یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ سے زیادہ فوجیوں کو جمع کر رکھا ہے اور اب فوجوں کا داخلہ بیلاروس میں بھی شروع ہوگیاہے اور دنیا کے مختلف حصوں میں دونوں حریفوں کے درمیان صف بندیاں بھی ہوچکی ہیں جس میں خلیج اور فارس شامل ہیں۔
روس نے اپنے قومی سیکورٹی خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام عالم کو واضح کردیا ہے کہ امریکہ اور اس کی اتحادی فوجوں کی یوکرین کے قریب نقل وحرکت کو برداشت نہیں کرسکتے اور امریکہ کی جانب سے روسی فوجیوں کی تعیناتی پر اعتراض کے سلسلے میں روس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی بین الاقوامی قانون نہیں ہے کہ جس کے تحت روسی فوج اپنے ملک میں ہی نقل وحرکت نہ کرسکیں،روس اپنی عسکری تعیناتی اپنی ہی حدود میں کررہا ہے۔
روس نے مزید واضح کیا ہے کہ وہ نیٹو سے یوکرین کورکن کے طور پر تسلیم نہ کرنے کی یقین دہانی بھی چاہتا ہے۔روس کو اس بات کا یقین ہے کہ اگر یوکرین نیٹو کا ممبر بن جاتا ہے تو نیٹو ممالک اپنے تمام عسکری سازو سامان کے ساتھ روس کی گردن پر بیٹھ جائینگے۔
اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ روس کے اس قسم کے مطالبا ت کو تسلیم نہیں کرسکے گا جس سے اس معاملے میں مزید تناؤ بڑھنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے خطرات واضح ہوتے جارہے ہیں۔
روسیوں کی طرف سے ایک اور اہم مطالبہ پورا ہونا بھی مستقبل قریب میں بہت زیادہ مشکل یا ناممکن ہے کہ ایسٹونیا، لیتھونیا اور لٹویا سمیت مشرقی یورپ میں نیٹو کے میزائل دفاعی نظام کا مکمل انخلاء کیاجائے ۔
پچھلے 15 سالوں میں نیٹو نے روس کے عقب میں بیلسٹک میزائل شیڈزاور عسکری تعیناتی کی ہے تاہم دور حاضر میں جنگ صرف فوجیوں کی تعیناتی تک محدود نہیں رہتی ۔
جدید عسکری ٹیکنالوجیز کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیٹو نے ایسے میزائل نصب کیے ہیں جو جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے خلاء میں بھی اپنی ٹیکنالوجیکل نقل و حرکت میں اضافہ کردیا ہے۔اس کے مقابلے میں روس نے بھی کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے نہ صرف فوجی ساز و سامان تیارکرلیا ہےبلکہ خلاء میں بھی ٹیکنالوجیکل ہتھیار بندی میں اضافہ کرلیا ہے۔
خطے کی صورتحال مزید بگڑی تو تصادم ایک فطری عمل کی طرف بڑھنا شروع ہوجائیگا۔اگرچہ ایک مکمل جنگ کے امکانات واضح نہیں ہیں مگرایسی صورتحال میں ایک مختصر جھڑپ بھی بین الاقوامی جغرافیائی سیاسی کشیدگی کو مزید دوام بخشے گی اوربدلتے عالمی منظر نامے میں عالمی جنگ کے امکانات گوکہ کم ہیں تاہم امکانات کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیاجاسکتا۔
یقینی طور پر یوکرین کے بحران کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گےاور مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو روس یاامریکہ ایک دوسرے پر دباؤ ڈالنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں جس کا مطلب یوں ہے کہ ایک جانب تو متحدہ عرب امارات میں ڈرون اور دیگرحملوں کی کثرت ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسرائیل کی دیرینہ خواہش کے مطابق اسرائیل جاری جنیوا مذاکرات کے ناکام ہونے کے بعد ایران کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی طرف عملی پیش قدمی کرسکتا ہے جس کا عندیہ اسرائیلی وزیردفاع اور موساد سربراہ نے حالیہ دورہ واشنگٹن میں دیا ہے۔
ایسے منظر نامہ میں ایران بھی سخت مزاحمت کی تیاری کرچکا ہے جس کے تحت ایران کے سلیپرسیلز اپنا بدلہ چکانے کیلئے کوئی تاخیر نہیں کرینگے۔یقیناً ایسی صورتحال یوکرین سے امریکہ کے دباؤ میں کمی کا باعث بن سکتی ہے اور روس کواس میں فائدہ خود بخود حاصل ہوجائیگا۔کوئی بعید نہیں کہ روس کی خفیہ ایجنسیاں اس پر پہلے ہی کام کررہی ہوں۔
اس قسم کے بحران کے نتیجے میں سنگین اقتصادی نتائج بھی مرتب ہونا یقینی ہے، مورگن اسٹینلے نے پیش گوئی کی ہے کہ سپلائی میں خلل کے باعث تیل کی قیمتیں 150 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہیں جس کا اثر پوری دنیا کی معیشت پر منفی صورت میں پڑے گا۔
یورپ کو گیس کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اسے روس سے اپنی سپلائی کا بڑا حصہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ، روس اور یوکرین دونوں گندم اور مکئی کے سب سے بڑے برآمد کنندگان ہیں اورسپلائی میں خلل سے خوراک کی کمی میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔
یوکرین میں مکمل جنگ کسی لحاظ سے اقوام عالم کیلئے فائدہ مندنہیں ہے لہٰذاتمام اسٹیک ہولڈرز کو ان خطرات سے بچنے کی اشدضرورت ہوگی تاہم موجودہ صورتحال میں فوجی نقل وحرکت اگر روس تک پہنچی تو ازخود ٹکراؤ کا ماحول بن جائے گا۔
اگرچہ جنگ کومکمل خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن یقیناً یوکرین میں بڑی جھڑپوں کی توقع کی جاسکتی ہے۔ کشیدگی جلد ختم ہونے کے امکانات مدہم سے مدہم ہوتے جارہے ہیں ۔
دانا قومیں ایسی صورتحال کو قبل ازوقت بھانپ لیا کرتی ہیں اور اپنے قومی مفادات کااہتمام جنگی بحران پیدا ہونے سے پہلے کرلیا کرتی ہیں۔ پاکستان جس کے افق پر پہلے ہی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں۔اس کیلئے ازحد ضروری ہے کہ اپنی تمام ترقوت اور صلاحیت بروئے کار لاتے ہوئے یوکرین کشیدگی کے مضر اثرات سے بچنے کیلئے تیاریاں مکمل کرےوگرنہ اس دگرگوں سیاسی ومعاشی صورتحال میں ہم کہیں ایسے دلدل میں نہ پھنس جائیں کہ جس سے نکلنا نہ صرف دشوار بلکہ ناممکن ہوجائے۔