دنیا بھر میں کورونا وائرس نے 7 کروڑ 77 لاکھ سے زائد افراد کو متاثر جبکہ 17 لاکھ 9 ہزار سے زائد کو ہلاک کردیا تاہم آج کل کورونا وائرس کی نئی قسم برطانیہ میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
آئیے کورونا وائرس کی اِس نئی قسم بی 117 کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے، کس عمر کے افراد کیلئے زیادہ نقصان دہ ہے اور انسانیت کو اس سے کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
بی 117 اور برطانیہ
میڈیا رپورٹس کے مطابق کورونا کی تبدیل شدہ قسم بی 117 عام کووِڈ 19 کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے، اِسے نیا نام دینے کی ضرورت اِس لیے پیش آئی کہ جینیتیاتی طور پر اِس کی شکل کووِڈ 19 سے کافی مختلف ہے۔
سائنسدانوں نے نئی قسم کے وائرس کو بی 117 کے نام سے موسوم کیا جو سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہوئی اور کورونا کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتی ہوئی پائی گئی۔ عام کورونا کے مقابلے میں اِس نئی قسم میں 23 نئی جینیاتی تبدیلیاں پائی گئیں۔
یہ تبدیلیاں نئے کورونا وائرس بی 117 کو انسان کے مدافعتی نظام پر زیادہ مؤثر حملہ کرنے کیلئے خلیوں کو جکڑنے میں معاون ہیں۔ برطانوی دارالحکومت لندن میں کورونا وائرس کے 60 فیصد سے زائد نئے کیسز کا تعلق بی 117 سے ثابت ہوا۔
دیگر ممالک پر اثرات
تشویش کی بات یہ ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم بی 117 صرف برطانیہ میں ہی محدود نہیں بلکہ یہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی پھیل چکی ہے جن میں جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، اٹلی، اسپین اور یورپ کے دیگر ممالک شامل ہیں۔
اب تک ڈنمارک میں بی 117 کے 9 کیسز سامنے آئے ہیں۔ برطانوی طبی مشیر سوسن ہوپکنز کے مطابق ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نئے کورونا وائرس سے بخار شدید ہوتا ہو، تاہم یہ کثیر علاقہ جات میں پھیلا ہوا ہے، جہاں کووِڈ 19 کیسز زیادہ ہیں، وہاں بی 117 بھی زیادہ پایا جارہا ہے۔
کورونا وائرس میں 3 اہم تبدیلیاں
خطرناک بات یہ ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم بی 117 پرانے وائرس کی جگہ لے رہی ہے کیونکہ سابقہ کووِڈ 19 کا خوف دنیا بھر کے تمام ممالک سے آہستہ آہستہ ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر وائرس کا لیبارٹری میں تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ہیئت یکسر بدل رہی ہے جس سے وائرس کا سب سے اہم حصہ متاثر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وائرس اپنی شناخت کو مکمل طور پر بدل سکتا ہے جیسا کہ کووِڈ 19 سے یہ وائرس بی 117 ہوچکا ہے اور آگے بھی یہ عمل جاری رہ سکتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ کچھ تبدیلیاں جو وائرس کی ہیئت میں رونما ہو رہی ہیں وہ اسے محض بدلنے کی بجائے پہلے سے بہتر، زیادہ طاقتوراور انسانی مدافعت کیلئے زیادہ مشکل اور ناقابلِ شناخت بنا رہی ہیں۔
چین، پاکستان اور برطانیہ میں الگ الگ وائرس
عوامی جمہوریہ چین وہ پہلا ملک تھا جہاں کووِڈ 19 یعنی کورونا وائرس سب سے پہلے پھیلا جہاں سے یہ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں منتقل ہوا تاہم جو وائرس آج پاکستان میں پایا جاتا ہے وہ چین سے سراسر مختلف ہے۔
دنیا کے بیشتر حصوں میں پایا جانے والا کووِڈ 19 وائرس آج چین سے مختلف ہے۔ فروری میں کورونا کی نئی قسم ڈی 614 جی میوٹیشن یورپ میں دریافت ہوئی جو آج عالمی سطح پر پھیلنے والی کورونا کی اہم ترین قسم مانی جاتی ہے۔
وائرس کی تیسری شکل بی 117 ضرور ہے تاہم اِس سے قبل اے 222 وی نامی قسم بھی دریافت ہوئی جو براعظم یورپ میں مکمل طور پر چھائی ہوئی ہے جو سب سے پہلے اسپین سے شروع ہوا۔
ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ اور ہسپتالوں کیلئے چیلنج
نئے بی 117 وائرس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ اِس لیے ہے کیونکہ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ پہلے کے مقابلے میں زیادہ افراد کو متاثر کرتا ہے اور بعض رپورٹس کے مطابق پہلی قسم کے مقابلے میں کمسن بچے اِس وائرس سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔
ابھی تک بی 117 وائرس کی زیادہ نگرانی ممکن نہیں ہوسکی کیونکہ یہ نئی قسم رواں برس ستمبر کے دوران دریافت ہوئی لیکن ہسپتالوں اور وائرس سے متاثرہ ہر ملک کی وزارتِ صحت کیلئے یہ نیا وائرس کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔
ایسا اِس لیے ہے کیونکہ وائرس تیزی سے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے جو پہلی فرصت میں ہسپتال کا رخ کرتے ہیں،کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اموات میں اضافے کا خدشہ ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا بیان
ایک جانب عالمی برادری نے چین سے فضائی آپریشن سمیت زمینی رابطے بھی کورونا وائرس کی خبر سنتے ہی منقطع کردئیے تھے اور اب جب یہ بات برطانیہ پر آئی تو عالمی ادارۂ صحت کا عجیب و غریب بیان سننے کو ملا۔
رواں ماہ کے آغاز سے ہی بی 117 کے کیسز بڑھنے کے بعد دنیا کے اکثر ممالک نے برطانیہ سے فضائی آپریشن سمیت ہر قسم کے سفری تعلقات ختم کردئیے تاہم عالمی ادارۂ صحت کے اہم نمائندے مائیک رائن نے کہا کہ کورونا کی نئی قسم کی دریافت ایک معمولی سی بات ہے کیونکہ ابھی یہ قسم قابو سے باہر نہیں ہوئی ہے۔
دو روز قبل خود برطانیہ کے سیکریٹری صحت میٹ بینکوک کہہ چکے ہیں کہ یہ نئی قسم سخت شدت کی حامل ہے، جس پر عالمی برادری میں تشویش پائی جاتی ہے۔
پاکستان کا اقدام
کورونا وائرس کی نئی قسم کی خبر ملتے ہی پاکستان نے برطانیہ سے آنے والے مسافروں کی آمد پر گزشتہ شب 12 بجے سےلے کر 29 دسمبر کی آدھی رات تک پابندی عائد کردی۔ یہی پابندی ایسے تمام افراد پر بھی عائد کی گئی جو گزشتہ 10 روز کے دوران برطانیہ میں کہیں بھی رہائش پذیر رہے ہوں۔
حکومتِ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ٹرانزٹ مسافر جو کسی اور ملک جاتے ہوئے محض فلائٹ تبدیل کرنے کیلئے برطانیہ جائیں اور ائیر پورٹ سے نہ نکلے ہوں، اِس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی شہری جو عارضی ویزہ لے کر برطانیہ پہنچے ہوں، فلائٹ سے قبل 72 گھنٹوں میں کورونا کا ٹیسٹ کرائیں اور منفی نتیجہ حاصل کرکے ہی پاکستان آئیں جنہیں پاکستان میں بھی پی سی آر ٹیسٹ سے گزرنا ہوگا اور جب تک نتیجہ نہ آئے، ایسے تمام لوگ حکومتی تحویل میں رہیں گے۔