آرمی پبلک اسکول سانحہ: 2014ء میں دہشت گرد حملے سے آج کی پھانسی تک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

آرمی پبلک اسکول سانحہ: واقعے کی تحقیقات پر 5 سالہ پیش رفت کا جائزہ
آرمی پبلک اسکول سانحہ: واقعے کی تحقیقات پر 5 سالہ پیش رفت کا جائزہ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سانحہ آرمی پبلک اسکول 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں دہشت گردوں کے حملے سے معصوم بچوں اور اساتذہ سمیت 150 افراد کی شہادتوں کی سوگوار کردینے والی داستان ہے جسے آج 5 سال مکمل ہوچکے ہیں۔

آج سے ٹھیک 5 سال قبل ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے ایف سی کا لبادہ اوڑھا اور پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں عقبی سمت سے چوروں کی طرح داخل ہوئے۔ دہشت گردوں نے اسکول کے ہال اور کمروں میں موجود بچوں پر گولیاں برسا کر اندھا دھند انہیں شہید کرنا شروع کردیا۔

Image result for APS ATTACK

سربراہِ ادارہ کو زندہ جلا دینے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر 9 اساتذہ اور 3 فوجی جوانوں سمیت 144 افراد کو شہید کردیا جبکہ 133 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔حملہ آوروں کے پاس اے کے 47 ، گرنیڈ اور خودکش جیکٹس موجود تھیں۔

Image result for APS ATTACK

آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں شہید ہونے والے 132 بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیان تھیں جبکہ 950 بچوں اور اساتذہ کو پاک فوج نے اسکول سے بحفاظت نکال لیا۔

دہشت گردوں کے خلاف کارروائی

اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اے پی ایس سانحے پر 3 روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا۔ اے پی ایس  پر حملہ آور 7 دہشت گردوں میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ اس کے جسم کے چیتھڑے اڑ گئے اور پورا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھر گیا جبکہ باقی 6 کو سیکورٹی فورسز نے جہنم واصل کردیا۔

Image result for APS ATTACK

آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والے دہشت گرد گروپ کے کل 27 ارکان میں سے 9 کو قتل کردیا گیا جبکہ 12 کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر تحقیقات شروع کی گئیں۔

وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے 20 نکاتی ایکشن پلان جاری کیا جس کی حمایت تمام سیاسی جماعتوں سے حاصل کی گئی۔ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں جنہوں نے فروری 2015ء سے کام کا آغاز کردیا۔ 

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بدلہ

پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی سیکورٹی ادارے جون 2014ء کے بعد سے دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف رہے۔ یہ آپریشن تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے کراچی ائیرپورٹ پر دہشت گردی واقعے کے بعد شروع کیا گیا۔

پاکستان نے آرمی پبلک اسکول واقعے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ تیز کردی جس کے باعث اب تک 1200 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور 90 فیصد وزیرستان ان سے پاک ہوگیا۔ اے پی ایس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تحریکِ طالبان کی طرف سے بیان آیا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا جواب دیا ہے۔

بچوں کے بیانات:

آرمی پبلک اسکول واقعے میں بچ جانے والے بچوں کے مطابق مسلح افراد پاکستان سے تعلق نہیں رکھتے تھے، نہ ہی وہ اُردو میں گفتگو کرتے تھے۔ وہ لوگ آپس میں عربی اور انگریزی میں بات کرتے تھے۔ انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کے بعد طلبہ سے سوال کیا کہ کس کس طالب علم کے والد آرمی میں ہیں؟

Image result for APS ATTACK

سوال کا مثبت جواب دینے والے بچوں کے ماتھے پر گولیاں چلا کردہشت گردوں نے انہیں شہید کردیا جبکہ ہاتھ کھڑے کرنے والے معصوم بچے شاید اس کے برعکس سوچ رہے تھے۔

آرمی پبلک اسکول سے کون ملوث تھا؟

تحقیقات کے مطابق اسکول کا لیب اسسٹنٹ دہشت گردوں کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ اسکول کے طالب علم سلمان اور اس کے کلاس فیلو کے مطابق لیب اسسٹنٹ نے دہشت گردوں کو حملے میں معاونت کی۔

آرمی پبلک اسکول کی ملک بھر میں 150 کے قریب شاخیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کسی کو ملازم رکھتے وقت اس کے پس منظر اور دہشت گردوں سے تعلقات پر سوالات کیوں نہیں کیے جاتے؟ ملازمین کار یکارڈ چیک کرنے سے بھی بہت سی معاملات کی گرہ کھل کر سامنے آسکتی ہے۔ 

پولیس کی غفلت:

مقامی تھانہ اسکول سے آدھے کلومیٹر کی دوری پر واقع تھا، لیکن پولیس اس کے باوجود واقعے کے آدھے گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچی۔ اس وقت تک پاک فوج نے کارروائی کرتے ہوئے اسکول سے 900 سے زائد افراد کو بچا لیا تھا۔

دہشت گردوں کے 2 گروہوں کے ملوث ہونے کا انکشاف

تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے پر دو گروہوں کے نام سامنے آئے جن میں سے ایک کا سرغنہ عتیق الرحمان پاکستان کو دہشت گردی کے متعدد مقدمات میں مطلوب تھا۔

عتیق الرحمان کی گرفتاری کے بعد رضوان عرف تاج نامی سرغنہ کا پتہ چلا جو ایک اور گروہ چلاتا تھا لیکن یہ لوگ بچ نکلنے میں کامیاب رہے جن کی تلاش اب تک جاری ہے۔

غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے، پرویز مشرف کا بیان

سابق صدر پرویز مشرف نے کہا کہ امریکا کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے تحریکِ طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے، جس کے باعث یہ افسوسناک سانحہ پیش آیا۔

مجرموں کو سزا :

واقعے کے 1 سال بعد 30 نومبر کو آرمی پبلک اسکول پشاور حملے کے چار اہم ملزمان عبداللہ، علی، مجیب الرحمٰن اور سبیل عرف یحییٰ کو فوجی عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی جس پر صدر اور وزیر اعظم سے ملزمان نے رحم کی اپیل کی۔

Image result for APS ATTACK

سانحے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے صدرِ مملکت اور وزیر اعظم نے سزا معاف کرنے سے انکار کردیا جس پر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے بلیک وارنٹ پر دستخط کیے اور 2 دسمبر کو کوہاٹ جیل میں ملزموں کو پھانسی دے دی گئی۔

آرمی پبلک اسکول واقعے کے ذمہ دار دہشت گردوں میں سے 5 کو فوجی عدالتوں نے 2019ء تک پھانسی پر لٹکا دیا۔ اس بات کی تصدیق آج کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان سے ہوتی ہے۔

سانحہ آرمی پبلک اسکول کے اہم سہولت کار کو پھانسی

آج سانحہ آرمی پبلک اسکول کے 5 سال مکمل ہونے پر سانحے کے اہم سہولت کار تاج محمد نامی شخص کو پھانسی دے کر کیفرِ کردار تک پہنچا دیا گیا جس سے شہداء کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی ہوئی۔

کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے سرگرم رکن تاج محمد ولد الف خان پر دہشت گردی کا الزام ثابت ہونے کے بعد مجرم کو صبح کے وقت پھانسی دی گئی۔ 

 

Related Posts