اور اب ماسکو سرپرائز

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہم نے 2021ء سے قبل کے اپنے کالمز میں ایک بات بارہا لکھی تھی۔ وہ یہ کہ افغانستان سے امریکی انخلاء بظاہر دوحہ معاہدے کے نتیجے میں ہوگا۔ جس سے وہ اور اس کے مقامی پیادے یہ تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ یہ تو امریکہ کی شرافت ہے کہ اس نے معاہدہ قبول کرلیا ورنہ وہ تو 50 سال اور بھی بیٹھ سکتا تھا۔

لیکن فی الحقیقت امریکی بھی جانتے ہیں کہ وہ شکست کے نتیجے میں ہی اس معاہدے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اور اس کا سب سے واضح ثبوت یہ ہے کہ دوحہ مذاکرات کے لئے سارا منت ترلہ امریکہ نے ہی کیا ہے۔ ہم نے یہ بھی لکھا کہ اس متوقع انخلاء کا دنیا میں امریکی اثر نفوذ پر گہرا اثر پڑے گا۔ کیونکہ جب کوئی کمزور ایک بار چوہدری کی ناک رگڑ دے تو چوہدری کے لئے اس خجالت سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اس سے چوہدری کی چوہدراہٹ بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

دوحہ معاہدہ ہوا تو اس میں اس بات کا پورا بندوبست کیا گیا تھا کہ چوہدری صاحب بہت باوقار انداز سے دھیرے دھیرے چلتے انخلاء فرمائیں۔ مگر چوہدری ہیرا پھیری سے باز نہ آیا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ انخلاء سے قبل غنی حکومت کو مضبوط کرنا شروع کیا بلکہ جولائی 2021ء کے آخر میں عالمی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جو بائیڈن نے بہت پر یقین لہجے میں دعویٰ کردیا کہ غنی حکومت کو کوئی فتح نہیں کرسکے گا۔ وہ بہت مضبوط ہے۔ مگر چند ہی دن بعد وہ لمحہ آیا جب چوہدری صاحب پگ اور دھوتی سنبھالے بالکل اسی طرح کابل کے امریکی سفارتخانے سے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے فرار پر مجبور ہوئے جس طرح ویتنام سے ہوئے تھے۔ گویا باعزت انخلاء کی حسرت حسرت ہی رہ گئی۔

یہ ایک عام سا رواج ہے کہ جب کسی چوہدری کی مٹی پلید ہوتی ہے تو وہ اپنی دھاک بٹھائے رکھنے کے لئے کسی اور کو ظلم کا نشانہ بنانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ ہمارے عالمی چوہدری نے بھی یہی راہ چنی۔ وہ بہت سے اتحادیوں کے بحری بیڑے لے کر ساؤتھ چائنا سی پہنچ گیا۔ ساتھ ہی اس نے چائنا کے خلاف کواڈ کی صورت ایک باقاعدہ گروپ بھی تشکیل دیدیا جس میں آسٹریلیا، بھارت اور جاپان شامل تھے۔ ابھی وہ اسی پر مرکوز تھا کہ روس نے اسے یوکرین میں کھینچ لیا۔ سمجھداری کا مظاہرہ کرتا تو اس ٹریپ میں نہ آتا مگر اسے لگا یوکرین کو نیٹو رکن بنانے کے بعد روس کو جو سبق سکھانا تھا اس کا موقع خود روس نے پہلے ہی فراہم کردیا۔ سارے اتحادی ساؤتھ چائنا سی بھول کر یوکرین جا پہنچے۔ یوکرین کی نسبت سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دو حکمتِ عملیاں بنائیں۔ ایک یہ کہ یوکرین کو اسلحہ فراہم کرکے اسے روس سے لڑائے رکھا جائے۔ اور دوسری یہ کہ اقتصادی پابندیاں لگا کر روسی معیشت کو ڈبو دیا جائے۔

ایک سال بعد صورتحال یہ ہے کہ یوکرین خود انہی اتحادیوں کے بقول شکست کے قریب ہے جبکہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود روس کی معیشت آئی ایم ایف کی گواہی کے مطابق ترقی کر رہی ہے۔ حالات کا جبر دیکھئے کہ نکلے تھے یہ روس کی معیشت ڈبونے مگر ڈوب امریکہ اور مغرب کے بینک رہے ہیں۔ پچھلے چند دن کے دوران تین امریکی بینک ڈوب چکے۔ سوئٹزرلینڈ کے بڑے بینک سویس کریڈٹ کو سینٹرل بینک نےریسکیو کرکے ڈوبنے سے وقتی طور پر بچا لیا ہے مگر بحران ٹلا نہیں۔ بدستور موجود ہے۔

وال سٹریٹ جرنل نے خبردار کیا ہے کہ 180 سے زائد بینک ڈوبنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ صرف مالیاتی بحران ہی کل بحران نہیں۔ بلکہ مغرب میں مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ بہت سی اجناس مارکیٹ سے غائب ہیں۔ برطانیہ کو آلو تک کے ناپید ہونے کا چیلنج درپیش ہے۔

ایک طرف ان کے گھروں کی کی یہ صورتحال ہے دوسری طرف خارجہ پالیسی کے محاذ پر انہیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں کہ نمیبیا اور کانگو جیسے کمزور افریقی ممالک نے ایک ہی ہفتے میں جرمنی اور فرانس کا غرور خاک میں ملا دیا ہے۔ کانگو کے صدر نے ایمانوئیل میکرون کے ساتھ جو کیا وہ تو پریس کانفرنس کے دوران ہی کیا ہے سو اس کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر آچکی ہے جو دیکھنے کی چیز ہے۔ اس بر اعظم کی صورتحال یہ ہے کہ افریقی ممالک میں ان دنوں شہری روسی پرچم اٹھا کر مغرب کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ ایمانوئیل میکرون تک یہ تسلیم کرچکے کہ افریقہ پر ہمارے کنٹرول کے دن تمام ہوگئے۔

خارجہ محاذ پر مغرب کی پسپائی کا دائرہ بے حد وسیع ہے۔ آپ یوکرین جنگ کے حوالے سے ہی دیکھ لیجئے۔ یہ جنگ شروع ہوتے ہی امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ روس کے خلاف اپنے اتحاد میں ہر رنگ و نسل کے ممالک کو شامل کرکے دنیا کو یہ دکھا دیں کہ روس تنہاء رہ گیا ہے، مگر ہر جگہ سے منہ کی کھانی پڑی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ روس کے ساتھ ایشیا سے لے کر افریقہ تک اور وہاں سے لاطینی امریکہ تک کے ممالک کھڑے ہیں جبکہ امریکہ ان دنوں فقط گوروں کا چوہدری بنا نظر آرہا ہے۔ گویا روس کا تو کچھ نہیں کٹا البتہ گورے باقی دنیا سے ضرور کٹ کر رہ گئے ہیں۔

ابھی پچھلے ہفتے ہی اپنے کالم “بیجنگ سرپرائز” میں تفصیل سے بتایا تھاکہ چین کا مشرقِ وسطی کے دو بڑے حریفوں سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحال کرانے کا عالمی افق پر کیا اثر پڑے گا۔ بظاہر لگا یوں تھا کہ چین نے اپنی یہ سفارتی سرگرمی روس سے بھی چھپا کر رکھی تھی۔ مگر اب جو خبریں آرہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عالمی محاذ پر ہر قدم میں روس اور چین ایک پیج پر ہیں۔ چار روز قبل شام کے صدر بشار الاسد نے اچانک ماسکو کا دورہ کیا ہے۔ اس دورے کی اہمیت یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران دو ممالک میں ایک دوسرے سے حالت جنگ میں چلے آرہے ہیں۔ ایک شام، دوسرا یمن۔ ان میں سے شام اس لحاظ  سے مختلف ہے کہ وہاں ترکی بھی برسر پیکار ہے۔ وہ وہاں سعودی عرب یا کسی اور کا اتحادی نہیں ہے بلکہ اپنی انفرادی موجودگی رکھتا ہے۔

سو ایسے میں سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات ٹھیک ہو بھی جائیں تو شام میں ترکی کی موجودگی کا کیا بنے گا؟ بشار الاسد کا حالیہ دورہ ماسکو اسی سوال کا جواب ہے۔ اطلاعات آرہی ہیں کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن شام اور ترکی کی مصالحت کرانے جا رہے ہیں۔ اور جب یہ مرحلہ طے ہوجائے گا تو بعید نہیں کہ ماسکو میں ایک ایسی سمٹ ہو جس میں سعودی عرب، ایران، ترکی اورشام شریک ہوں۔ یوں مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی راہیں پوری وسعت کے ساتھ کھلنے کا ایک زبردست امکان موجود ہے۔ یہ نئی پیش رفت یہ بتاتی ہے کہ بیجنگ سرپرائز اکیلا نہیں آیا، اس کی اوٹ میں ماسکو سرپرائز بھی چھپا بیٹھا تھا۔ “دکھ” بس ہمیں ایک ہی بات کا ہے۔ یہ ساری صلحیں کرانی ہمارے اخیر المؤمنین نے تھیں مگر امریکہ نے سازش کرکے یہ کریڈٹ چین اور روس کو دلوادیا۔ چلئے کوئی بات نہیں،اخیر المؤمنین کا فواد چوہدری اور پرویز الہی کی صلح کرالینا بھی کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ اس کے اثرات بھی عالمگیر ہیں، کیونکہ یوتھیا ہر ملک میں پایا جاتا ہے !

Related Posts