اٹھارہویں آئینی ترمیم پر وفاق اور سندھ حکومت کی چپقلش، وجوہات کیا ہیں؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

NA session to be held on Monday

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

تحریکِ انصاف کی وفاقی حکومت اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے مابین متعدد موضوعات پر اختلافات اور بعض اوقات ایک دوسرے پر  طعن و تشنیع کے نشتر برسائے جاتے ہیں تاہم اٹھارہویں ترمیم وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان ایک ہمیشہ سے ایک سلگتا ہوا موضوع رہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت متعدد پی پی پی رہنما یہ بات کہہ چکے ہیں کہ وفاق کو اٹھارہویں آئینی ترمیم سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرنے دیں گے جبکہ دوسری جانب تحریکِ انصاف کی طرف سے دو مختلف قسم کے مؤقف سامنے آتے ہیں جن میں پیپلز پارٹی کی مخالفت زیادہ تر ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے حالیہ دنوں میں ہی ایک ٹوئٹر پیغام جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کوئی الہامی صحیفہ نہیں اور اگر عوامی مفادات کےتحفظ کیلئے اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کوئی تبدیلیاں ضروری ہوئیں تو ضرور کی جائیں گی۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم کیا ہے؟

اٹھارہویں آئینی ترمیم کوئی ایک ترمیم نہیں بلکہ آئینِ پاکستان میں کی گئی متعدد ترامیم کا مجموعہ ہے جن کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 100 کے قریب بنتی ہے۔

سندھ حکومت پر تمام تر کرپشن کے الزامات کے باوجود یہ سہرا پیپلز پارٹی کے سر جاتا ہے کہ ان کے دورِ اقتدار کے دوران 8 اپریل 2010ء کو 18ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جبکہ آصف علی زرداری صدرِ پاکستان تھے۔ 

یہ آئینی ترمیم آئینِ پاکستان کی 83 دفعات میں مختلف چھوٹی موٹی اور بڑی بڑی تبدیلیاں پر مشتمل ہے جن کے تحت وفاق اور صوبوں کے اختیارات، صوبوں کے نام، وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کے اختیارات اور دیگر اہم امور میں تبدیلیاں کی گئیں۔

ترمیم سے متاثرہ آئینی دفعات 

تکنیکی اعتبار سے پاکستان پر اِس وقت سن 1973ء کا قانون نافذ ہے جس میں 18ویں آئینی ترمیم سمیت دیگر متعدد ترامیم کی گئی ہیں جن پر بحث فی الحال ہمارا موضوع نہیں۔

اٹھارہویں ترمیم کے تحت متاثرہ دفعات میں آئین کی دفعہ 1، 6، 10، 17، 19، 27، 25، 29، 38، 41، 46، 48، 51، 58، 62 سے 63، 70 سے71، 73، 75، 89 سے 92، 99 سے 101، 104 سے 105، 112، 114، 122، 129 سے 132، 139 سے 140، 142 سے 144 شامل ہیں۔

اس  کے علاوہ دفعہ 147، 149، 153 سے 157، 160، 167 سے 168، 170 سے 172، 175، 177، 193 سے 194، 198 سے 200، 203، 209، 213، 215 سے 216، 218 سے 219، 221 ، 224، 226، 228، 232، 233 سے 234، 242 سے 243، 246، 260، 267 سے 270 بھی متاثرہ دفعات میں شامل ہیں۔

جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی ترامیم پر اثر

آئینِ پاکستان کے تحت آئین سازی کسی فوجی جنرل کا استحقاق نہیں بلکہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین عوام کے دئیے گئے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد آئین میں ترامیم کے مجاز ہیں، تاہم پاکستان کا معاملہ مختلف رہا ہے۔

جنرل ضیاء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف سمیت متعدد فوجی حکمران پاکستان پر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یا چیف ایگزیکٹو آف پاکستان سمیت مختلف ناموں سے حکمران رہے ہیں جنہوں نے اپنی مرضی سے آئین میں تبدیلیاں کیں۔ 

اٹھارہویں آئینی ترمیم جنرل ضیاء الحق اور جنرل (ر) پرویز مشرف کی بالترتیب 8ویں اور 17ویں آئینی ترمیم کے تحت آمریت کے دور میں کی گئی تقریباً تمام ترامیم کو ختم اور کالعدم قرار دیتی ہے۔

صوبوں کے ناموں پر اثرات

اٹھارہویں آئینی ترمیم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس کے تحت شمال مغربی سرحدی صوبے (این ڈبلیو ایف پی) کا نام تبدیل کرکے خیبر پختونخواہ (کے پی کے) کردیا گیا جبکہ بلوچستان اور سندھ کے انگریزی اسپیلنگز میں معمولی تبدیلیاں کی گئیں۔

سندھ کے اسپیلنگز ایس آئی این ڈی میں ایچ کا اضافہ کیا گیا جبکہ بلوچستان کے اسپیلنگز Baluchistan  کو تبدیل کرکے Balochestan کر دیا گیا جس کی کوئی خاص وجہ اس کے علاوہ بیان نہ کی جاسکی کہ پاکستان انگریز سامراج کے دور میں دئیے گئے ناموں میں تبدیلی کا خواہش مند تھا۔

غداری کی سزا میں تبدیلی

آئین کی دفعہ 6 کے مطابق ملک سے غداری کی سزا صرف موت ہے۔ کوئی بھی شخص آئینِ پاکستان کو اپنی مرضی سے معطل نہیں کرسکتا، جیسا کہ آمریت کے دور میں کیاجاتا رہا جبکہ دفعہ 6.2 اے کے تحت سپریم کورٹ سمیت ملک کی کوئی بھی عدالت آئین آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی پر معافی کا فیصلہ نہیں کرسکتی۔

دفعہ 6.2 اے ایک نئی تبدیلی ہے جو اٹھارہویں ترمیم کے تحت لائی گئی۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم آمریت کے تمام دروازے بند کرنے کے لیے لائی گئی۔

صدرِ مملکت کے اختیارات میں کمی

آئین کی دفعہ 58 ٹو بی جسے ضیاء الحق نے متعارف کروایا تھا، کے تحت صدرِ مملکت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ جب چاہتے صوبائی اور قومی اسمبلیاں تحلیل کرکے حکومت کا بوریا بستر گول کرسکتے تھے۔

اٹھارہویں آئینی ترمیم نے صدرِ مملکت کا یہ اختیار مکمل طورپر ختم کردیا۔ ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار تبدیل کرکے اسے صرف صدرِ مملکت تک محدود کرنے کی بجائے جودیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا گیا۔

وفاق اور صوبوں کی چپقلش

اٹھارہویں آئینی ترمیم کا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جس میں صوبائی خودمختاری کو یقینی بنایا گیا ہے اور وفاق کے صوبوں پر بعض اختیارات کو محدود کرتے ہوئے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بنایا گیا ہے۔

بجلی کی پیداوار پر صوبوں کا حق تسلیم کیا گیا۔ اسی طرح قومی مالیاتی کمیشن، صوبائی قرضے، قدرتی گیس اور ایمرجنسی کے نفاذ سمیت متعدد اختیارات صوبوں کو تفویض کیے گئے۔

کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن پر 18ویں ترمیم کا اثر

صوبے آج 18ویں آئینی ترمیم کا فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ وفاق کی پالیسی مکمل طور پر نیچے تک نافذ نہیں ہو پا رہی۔ اس کا مشاہدہ کورونا وائرس کے باعث ملک بھر میں کیے گئے لاک ڈاؤن سے بخوبی کیاجاسکتا ہے۔

ایک طرف وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کراچی سمیت صوبے بھر میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کر رکھا ہے جس کے دوران خصوصی طور پر نمازِ جمعہ کی ادائیگی پر پابندی کیلئے 12 سے ساڑھے 3بجے تک سخت لاک ڈاؤن کیاجاتا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار لاک ڈاؤن میں نرمی برت رہے ہیں۔ انہوں نے 40 سے زائد صنعتیں کھولنے کے لیے حکمتِ عملی وضع کر لی ہے جبکہ متعدد صنعتیں پنجاب میں پہلے ہی فعال ہیں۔

صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ لاک ڈاؤن پر الگ الگ حکمتِ عملی رکھتے ہیں جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان اسمارٹ لاک ڈاؤن اور صنعتوں کو آہستہ آہستہ کھولنے کے حق میں ہیں جس کی سندھ حکومت بھرپور مخالفت کر رہی ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہنگامی حالت کا نفاذ، فوجداری قوانین، ثبوت و شہادت جیسے اہم اختیارات آج اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی کابینہ اور اسمبلیوں کو حاصل ہیں۔ 

Related Posts