امریکہ جیسا سخی بادشاہ

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کل 15 اگست کی تاریخ تھی۔ وہی 15 اگست جو بھارت کا یوم آزادی ہے مگر اس بار بھارت میں اس کا جشن نہ منایا جاسکا۔ اس کے ٹی وی چینلز پر ہندتوا کے اسمال، میڈیم اور لارج سائز پنڈت ڈینگیں مارتے نظر نہیں آرہے تھے۔

اترے چہروں اور لڑکھڑاتی زبانوں پر اگر کوئی ذکر تھا تو اس یوم آزادی کا جو افغانستان میں طلوع ہو رہا تھا۔ وہی افغانستان جہاں قونصل خانوں کے نام پر اس کے دہشت گردی کے سات اڈے قائم رہے تھے۔ مگر تین روز قبل ہی اسے افغانستان سے فرار ہونا پڑا تھا۔

بات فرار کی ہو تو بھولا وہ فرار بھی نہیں جاسکتا جو بگرام ایئربیس سے رات کی تاریکی میں ہوا تھا۔ دنیا کی واحد سپر طاقت نے فرار ہونے سے قبل بتیاں بجھائیں اور کھسک لی۔ کھسکنے سے قبل اشرف غنی تک کو نہ بتایا کہ آج کی شب ہماری دم دبانے کی شب ہے اور بھلایا وہ فرار بھی کبھی نہ جاسکے گا جو کل ہی کابل کے امریکی سفارتخانے سے شنوک ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ہوا۔ بگرام سے عسکری فرار ہوا تھا اور کابل شہر سے سفارتی۔

45 سال ہوئے جب ہیلی کاپٹر اسی طرح سائیگون کے امریکی سفارتخانے کی چھت پر بھی اترے تھے۔ جب وہ منظر نہ بھلایا جاسکا تو کابل اور بگرام کے مناظر کیسے بھلا دیئے جائیں گے ؟ یہ تو تاریخ نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لئے۔

سوال یہ ہے کہ کابل میں سفارتخانے تو اور بھی تھے۔ افراتفری اور فرار کی نوبت امریکہ، بھارت اور دیگر اتحادیوں پر ہی کیوں آئی تھی ؟ اسٹوڈنٹس کابل کے دروازے پر تھے، روس جیسا بڑا ملک ماسکو سے اعلان جاری کر رہا تھا کہ ہمیں کوئی پریشانی نہیں۔

ہمارا سفارتخانہ حسب معمول کام کرتا رہے گا۔ سو پوچھنا تو بنتا ہے کہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہی کیوں خوفزدہ تھے ؟ کیا کسی نے کوئی دھمکی دی تھی ؟ کیا ایسی انٹیلی جنس رپورٹس تھیں کہ آنے والے انہیں نشانہ بنائیں گے ؟ نہیں، ایسا کچھ بھی نہ تھا۔

بس دل کا چور تھا جو انہیں چین نہ لینے دے رہا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی عقل کی حماقت دیکھئے کہ ایک طرف افغان اسٹوڈنٹس (اصل نام فیس بک نے بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ سو متبادل نام استعمال کیا جارہا ہے) سے “باعزت انخلاء” کے لئے مذاکرات کئے گئے اور جب اس کے لئے معاہدہ طے پاگیا تو بگرام اور کابل سے چوروں کی طرح بھاگ کر بے سبب ہی خود کو جگ ہنسائی کا نشانہ بنوا لیا۔

دن کی روشنی میں شریفوں کی طرح سامنے کے دروازے سے نکلتے تو تاریخ میں رقم یہی ہونا تھا کہ ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی روشنی میں امریکہ نے انخلاء کیا۔ لیکن جن کے نصیب میں کاتب تقدیر نے رسوائی لکھدی ہو۔ ان کی رسوائی کسی معاہدے کی تحریر کہاں روک سکتی ہے ؟ اسی لئے تو کاتب تقدیر کا دعویٰ ہے کہ وتعز من تشاء و تذل من تشاء۔ عزت اور ذلت کے فیصلے اس نے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں، سو جن کے لئے ذلت لکھ دی گئی تھی وہ بے سبب بھی اس کا شکار ہوکر رہے۔

ان گزرے بیس سالوں میں جو چیز ایک لطیفہ بن کر رہ گئی ہے، وہ امریکہ کی انٹیلی جنس رپورٹس ہیں۔ دو درجن سے زائد لوگ ایک نہیں چار طیارے ہائی جیک کرنے کا صرف منصوبہ ہی نہیں بنا رہے تھے بلکہ اس پر کامیابی سے عمل بھی کر گزرے مگر امریکی انٹیلی جنس سروس کو پتہ تب چلا جب طیارے اہداف سے جا ٹکڑائے۔ افغانستان پر حملے کے بعد اسٹوڈنٹس جلد شہروں سے تتربتر ہوگئے تو یہ فتح کا جشن منانے لگے۔

کسی انٹیلی جنس رپورٹ نے انہیں یہ نہ بتایا کہ ہاتھی کو دلدل میں پھنسانے کی تیاری ہے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب اکتوبر 2001ء میں کسی نے بتایا تھا کہ ہاتھی کو گھٹنوں تک پھنسانے کا ارادہ ہے تاکہ یہ خود کو چھڑا کر بھاگ نہ سکے اور اسے گھٹنوں تک پھنسنے میں پانچ سال لگیں گے۔ وہی ہوا۔ 2006ء کے بعد ہی ہاتھی کی اصل درگت بننی شروع ہوئی تھی۔ 2010ء کے بعد سے ہاتھی نے لاکھ جتن کئے کہ خود کو دلدل سے چھڑا سکے مگر وہ تو گھٹنوں گھٹنوں دھنس چکا تھا۔

جو بات مجھ جیسے ایک عام اخبار نویس کو اکتوبر 2001 سے ہی معلوم تھی۔ وہ امریکی انٹیلی جنس کو یا تو معلوم نہ تھی، یا پھر یہ تکبر کا شکار تھے۔ دنیا کی واحد سپر طاقت ہونے زعم کوئی معمولی زعم تو نہیں ہوتا۔ اوپر سے سیلوسٹر اسٹالون، آرنلد شوارزنگر اور ٹام کروز کی فلمیں، جنہیں ہمارے دیسی لبرلز کی طرح یہ بھی سچ مچ کی ہیرو پنتی مان بیٹھتے ہیں۔

نتیجہ یہ کہ ان کا ہر فوجی میدان جنگ کی جانب آتا تو ٹام کروز کی طرح ہے، مگر جاتا ٹام اینڈ جیری کی طرح ہے۔ ان کی بدبختی ہی ہے کہ یہ سپر طاقتیں ایک دوسرے کے انجام سے سبق بھی تو نہیں سیکھتیں۔ ہر سپر طاقت خود کو پچھلی سپر طاقت سے بہتر خیال کرتی ہے۔ وہ یہ تو سوچ لیتی ہے کہ جو ٹیکنالوجی ہمیں دستیاب ہے وہ پچھلی سپر طاقت کے پاس نہ تھی۔ مگر اتنی سی بات ان کے دماغ میں جگہ نہیں بنا پاتی کہ ہر سپر طاقت اپنے وقت کی سب سے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوتی ہے۔

برطانیہ جس دور کی سپر طاقت تھا، اس دور کے سب سے جدید وسائل اسے میسر تھے۔ یہی صورتحال سوویت یونین کی بھی تھی۔ اس کے وسائل برطانیہ کی نسبت جدید تر تھے تو نائن الیون کے بعد والے امریکہ کے وسائل سوویت یونین سے بہتر۔ اسی کا نام تو ارتقاء ہے۔ مگر تاریخ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ سائنس فتح کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ سائنس سائنس کو تو مغلوب کرسکتی ہے مگر انسان کو مغلوب کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ پھر چاہے انسانوں میں سے کچھ ہمارے دیسی لبرلز کی طرح اسے خدا کا مقام ہی کیوں نہ دے بیٹھیں۔

7 اگست، یعنی صرف ایک ہفتہ قبل برطانوی فوج کا سابق سربراہ بی بی سی پر پورے یقین کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ ہم نے افغان عوام کو ایک ایسی زندگی دی ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ سو وہ اس پرکشش زندگی کے لئے اسٹوڈنٹس سے لڑیں گے۔ ہمارا کام بس یہ ہے کہ انہیں زمین پر سیاسی اور فضاء سے عسکری سپورٹ فراہم کریں۔ اسٹوڈنٹس ان سے ملک نہیں لے سکیں گے۔

ظاہر ہے یہ بڑے میاں بھی انٹیلی جنس رپورٹس کے مارے تھے۔ وہی انٹیلی جنس رپورٹس جو 23 جون 2021ء کو دنیا میں بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہویں تو یہ تھیں کہ اسٹوڈنٹس کو کابل پر قبضے میں چھ ماہ لگیں گے۔ اگلوں نے ڈیڑھ ماہ میں قصہ تمام کرکے دکھا دیا۔

سب کچھ اس برق رفتاری سے ہوا کہ پنٹاگون کے پاس بھی سوچنے سمجھنے کی مہلت نہ تھی۔ ہر گھنٹے کوئی نہ کوئی بڑی خبر آرہی ہو تو ایسے میں صدر امریکہ کو اپڈیٹ رکھنابھی محال ہوجاتا ہے۔ ایک اطلاع وائٹ ہاؤس پہنچی نہیں کہ دوسری آرہی ہے۔ وہ ابھی ٹائپ ہو رہی ہے کہ تیسری آ رہی ہے۔ یہ اسپیڈ کا کھیل تھا جس میں اسٹوڈنٹس نے آواز سے دگنی رفتار والوں کو فیل کرکے رکھ دیا۔ وہ جانتے تھے کہ بی 52 بمبار طیاروں کا ڈیگو گارشیا سے آنا جانا لگا رہے گا لہٰذا ان طیاروں کی رفتار سے آگے رہنا ہو گا۔ اور انہوں نے یہ کرکے دکھا دیا۔

اس پورے معاملے میں بہت ہی قابل رحم حالت ہمارے لنڈا بازار کی ہے۔ جس کے مکین یعنی دیسی لبرلز 20 سال تک اس بات پر زور دیتے رہے کہ پاکستان امریکہ کی مان کر کیوں نہیں چلتا ؟ اس نے اسٹریٹیجک ڈیپتھ والی پالیسی کیوں اب تک پکڑ رکھی ہے ؟ وہ افغان محاذ پر امریکہ کو سچا پیار کیوں نہیں دیتا ؟ لیکن گزشتہ روز انہوں نے یکایک یہ موقف اختیار کرلیا کہ امریکہ اسٹوڈنٹس کے ساتھ ملا ہوا ہے۔

اگر ایسا ہی ہے تو پھر تو آپ کو خوشی سے ناچنا چاہئے کہ اسٹوڈنٹس اور آپ کا آقا ایک پیج پر آگئے ہیں۔ آپ خوش ہونے کے بجائے ٹینشن میں کیوں ہیں ؟ بیس سال تک اس مخلوق کا دعویٰ یہ تھا کہ پاکستان اسٹوڈنٹس کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ لیکن کل یکایک کہنے لگے “امریکہ اسٹوڈنٹس کی پشت پناہی کر رہا ہے” اگر ایسا ہی ہے تو اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ اب افغانستان ایک حقیقی لبرل ریاست بن جائے گا۔

ظاہر ہے امریکہ اسی کے لئے پشت پناہی کر رہا ہوگا۔ آپ تو بیس سال تک اپنی حکومتوں پر زور دیتے رہے کہ امریکہ کا ساتھ دو اور ملک کو ضیاء الحق والی اسلامائزیشن سے نکال کر لبرل ریاست بناؤ۔ اگر بقول آپ کے اسٹوڈنٹس ایسا کر رہے ہیں تو پھر آپ کی شکلوں پر 12 کیوں بج رہے ہیں ؟ ٹینشن میں تو انہیں ہونا چاہئے جو اسلام کی خاطر بیس سال تک اسٹوڈنٹس کی حمایت کر تے رہے۔ وہ خوش اور پریشان آپ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ آپ ان شگوفوں سے اپنی خفت مٹانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ آنے والے وقت میں آپ خود کو ہی سوالات کے ایسے بھنور میں پھنسا لیں گے کہ نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن۔

ان یتیموں کو بس اتنی سی بات نے مخمصے کا شکار کردیا ہے کہ بغیر جنگ کے اتنی تیزی سے اسٹوڈنٹس نے قبضہ کیسے کرلیا ؟ جواب بہت سادہ سا ہے۔ یہ جنگ افغانوں کی تھی ہی نہیں۔ یہ نائن الیون کے نتیجے کے طور پر امریکہ کی اپنے مقاصد کے لئے مسلط کردہ جنگ تھی۔ جب امریکہ ہی رات کی تاریکی میں فرار ہوگیا تو افغان فوج یا شہری اسٹوڈنٹس سے کیوں لڑتے ؟ ان کی تو اسٹوڈنٹس سے کوئی دشمنی نہ تھی۔ وہ تو بس موقع پرست بن کر امریکہ کی جیب خالی کرتے رہے اور پورے سوا دو ٹریلین چوس کر چھوڑا۔

سب سے اہم بات یہ کہ لوگ وہ مذاکرات بھول رہے ہیں جو ماسکو میں افغان اسٹیک ہولڈرز کے مابین ہوتے رہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ اسٹیک ہولڈرز بس ایک کانفرنس ہال میں آپس میں ہی ٹی وی کیمروں کے سامنے ملے تھے تو اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہئے۔

پس پردہ کیا کچھ طے ہوا ہوگا اور روس نے کیا رول پلے کیا ہوگا یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر ان اسٹیک ہولڈرز نے بس آپس میں ہی ایک کانفرنس روم میں ملنا تھا تو یہ کام تو دوحہ میں بھی ہوسکتا تھا۔ ماسکو کےکئی چکر کس چکر میں ؟۔

دیسی لبرلز کا تازہ ترین بڑا صدمہ تو یہی ہے کہ انہوں نے پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران یہ پیشگوئیاں کر رکھی تھیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی ہوگی۔ بھائی بھائی کا خون بہائے گا۔ لیکن جب بھائی بھائی سے نہیں لڑ رہا تو اب کھسیانی دیسی بلی کھمبا نوچتے ہوئے گٹھ جوڑ کا شوشہ چھوڑ رہی ہے۔

اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں دانشوری کے نام پر اکثریت انہی پیادوں کی ہے اور حالت ان کی یہ ہے کہ پچھلے بیس سال کے دوران کیا گیا ان کا ہر تجزیہ 15 اگست 2021ء کو خاک میں مل گیا ہے۔ اب تو خود امریکہ اس مخلوق سے مایوس ہوگیا ہے۔ دو دن قبل ہی حد درجے معتبر ذریعے نے اطلاع دی ہے کہ نائن الیون کے بعد اس جنگ کی سپورٹ کے لئے امریکہ نے پاکستان میں جتنی این جی اوز کھڑی کی تھیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی اس سال “پروجیکٹ” نہیں ملا۔ اب یا تو یہ فاقوں مریں گے یا پھر دوسرا آپشن یہ ہے کہ نئے آقاؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔ مگر امریکہ جیسا سخی بادشاہ دنیا میں کوئی اور کہاں ؟ میں تو کہتا ہوں داڑھیاں رکھ کر محمد بن سلمان کی دیہاڑی پر گزارہ کر لیں !

Related Posts