حکومت کا پنشنرز پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ، آئی ایم ایف کی شرائط اور کمزورمعیشت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت کا پنشنرز پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ، آئی ایم ایف کی شرائط اور کمزورمعیشت
حکومت کا پنشنرز پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ، آئی ایم ایف کی شرائط اور کمزورمعیشت

پاکستان تحریکِ انصاف نے اقتدار سنبھالنے سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاس نہیں جائیں گے تاہم چشمِ فلک نے وہ نظارہ دیکھا جب پی ٹی آئی حکومت خود آئی ایم ایف کے پاس گئی، عوام پر بھاری بھرکم ٹیکسز عائد کیے گئے اور عالمی ادارے کی شرائط تسلیم کرتے ہوئے ملک کی کمزور معیشت کو مزید کمزور کردیا گیا۔

آج ملک کی ڈگمگاتی معیشت آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے پر مجبور ہے۔حکومت بجٹ میں پنشنرز پر ٹیکس لگانے کی شرط بھی مان چکی ہے۔ آئیے آئی ایم ایف کے دیگر مطالبات اور ملک کے معاشی مسائل پر غور کرتے ہیں۔

پنشنرز پر ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ

گزشتہ روز یہ خبر سننے کو ملی کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں پنشنرز پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی تجویز ہے کہ تمام پنشنرز پر 7 اعشاریہ 5 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے جبکہ ہر سال پنشنرز کو 250 ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں۔

پنشن کے ساتھ ساتھ گریجویٹی پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیرِ غور ہے۔ میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت جنرل پروویڈنٹ فنڈ کے منافعے پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی خواہش مند ہے۔ پنشن پر ساڑھے 7فیصد ٹیکس کے اطلاق سے 18 ارب روپے جمع ہونے کا تخمینہ لگا لیا گیا۔ 

قوم کی خودمختاری داؤ پر

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت نے سخت شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا، قوم کی خودمختاری داؤ پر لگ گئی۔ بھارت نے کورونا کے دوران مہنگائی کو 4 اعشاریہ 29 جبکہ بنگلہ دیش نے 5 اعشاریہ 54 فیصد تک قابو کر لیا۔ پاکستان میں مہنگائی 10 اعشاریہ 9 فیصد کیوں ہے؟ حکومت مہنگائی کا الزام آئی ایم ایف پر نہیں لگا سکتی۔ 

آئی ایم ایف پروگرام اور حکومت کے ارادے 

گزشتہ ماہ ایک نیوز کانفرنس کے دوران وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ تحفظات کے باوجود آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کا پروگرام برقرار ہے اور ہم اس سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہمیں ریونیو وصولیوں کے حجم کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف نے سخت شرائط عائد کی ہیں جن کی نوعیت سیاسی بھی ہے۔ قبل ازیں آئی ایم ایف سے فرینڈلی پروگرام بھی ملا تھا، تاہم موجودہ دور میں آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھ دی ہیں۔ 

عوام پر آئی ایم ایف شرائط کے اثرات

بجلی کے جن صارفین کا بل 5 سے 6 ہزار روپے تھا وہ 1 سے 2 ماہ میں بڑھ کر 10 ہزار روپے ہوچکا ہے۔ جو لوگ پہلے 1 سے 2 ہزار روپے بھر رہے تھے، انہیں ماہانہ 4 سے 5 ہزار روپے تک بل ادا کرنا پڑ رہا ہے۔

معاشی اشاریوں میں سمجھنے کی سب سے اہم بات ایک چیز کی قیمت چھیڑنے سے دوسری کی قدر میں خودبخود تبدیلی ہوتی ہے۔ بجلی کے بلز میں اضافے سے مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے اور ذرائع آمدورفت مہنگے ہونے سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے جن شرائط پر آئی ایم ایف سے اتفاق کیا ہے ان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹیکسز پر چھوٹ کا خاتمہ شامل ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے اگر مرکزی بینک نے شرحِ سود بڑھائی تو معاشی پیداوار متاثر اورمصنوعات مہنگی ہوجائیں گی۔

آئی ایم ایف اعلامیہ 

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹیٹ بینک کی خودمختاری، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور کارپوریٹ ٹیکس میں اصلاحات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔

قبل ازیں جولائی 2019ء میں پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کرنے کی منظوری ای ایف ایف (ایکسٹینڈڈ فنڈ فیزیبلٹی) کے تحت دی گئی۔ اب تک پاکستان 2 قسطوں میں ڈیڑھ ارب ڈالر وصول کرچکا اور 50 کروڑ ڈالر کی وصولی کے بعد 2 ارب ڈالر مکمل ہوجائیں گے۔ 

کمزور معیشت پر اثرات 

پی ٹی آئی حکومت کے دعوے اپنی جگہ، تاہم ملکی معیشت بد ترین قرضوں کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے اورقرض ادا کرنے کیلئے بھی مزید قرض لیا جارہا ہے جس پر سود در سود کا سلسلہ کبھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

اگر ہم آئی ایم ایف اعلامیے کا جائزہ لیں تو اسٹیٹ بینک کی خودمختاری حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے، توانائی کے شعبے میں جن اصلاحات کی بات کی گئی، ان کے ذریعے بجلی مہنگی کی جارہی ہے۔

کارپوریٹ ٹیکس میں اصلاحات ہمارے سامنے ہیں۔ پنشنرز پر ٹیکس بھی انہی اصلاحات کی ایک کڑی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث پاکستانی معیشت کمزور سے کمزور تر ہورہی ہے۔ 

Related Posts