جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان کاکہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کا دوبارہ اور فوری انتخاب پر اتفاق ہے، وزیراعظم کے استعفے کےمطالبے کوتسلیم کیےبغیر مذاکرات نہیں ہوں گے۔
اسلام آباد میں نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر میر حاصل بزنجو سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےمولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آزادی مارچ کی حمایت پر حاصل بزنجو کا خیرمقدم کرتےہیں، تمام اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر ہیں کہ پی ٹی آئی جعلی مینڈیٹ پر حکومت میں آئی اور ہمارے وزیراعظم کو بیرون ملک بھی وزیراعظم والا پروٹوکول نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا عمران خان کو وزیراعظم نہیں سمجھتی اور میں پاکستانیوں کی جانب سے پوری دنیا کو پیغام دیتا ہوں کہ عمران خان سے بطور وزیراعظم مذاکرات نہ کیے جائیں۔
شیخ رشید کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 27 اکتوبر کو مقبوضہ جموں و کشمیر سے اظہار یک جہتی کریں گے اور مارچ شروع ہو جائے گا اور 31 اکتوبر کو ملک بھر سے قافلے اسلام آباد میں داخل ہوں گے، ہمارے ساتھ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ‘ہمارے کارکنوں سے براہ راست رابطے بند کر دیے جائیں کیونکہ رابطے مرکزی سطح پر ہوتے ہیں اور ہماری جماعت کے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریں گے’۔
دھرنے کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری رائے ہے کہ مسلسل بیٹھا جائے لیکن چند جماعتیں جلسے کی بات کر رہی ہیں، تمام سیاسی جماعتیں اپنی بساط کے مطابق ساتھ دینے کی بات کرتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اگر حکمرانوں نےگرفتاریاں کیں تو مزید جذبہ پیدا ہوگا اور گرفتاریوں سے تحریکیں کبھی ختم نہیں ہوتیں بلکہ اس سے جوش اور جذبے میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے حکمرانوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ شہد کی مکھی کے چھتے کو ہاتھ نہ لگائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کے سیلاب کو کوئی نہیں روک سکے گا اور روکنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہیے بلکہ سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کا دوبارہ اور فوری انتخاب پر اتفاق ہے، اس پر کوئی دو رائے نہیں ہے اور ان ہاؤس تبدیلی ہمارا درد سر نہیں ہے اگر کسی کے پاس ایسی کوئی تجویز ہے تو وہ سامنے لائے، سب لوگ بیٹھیں گے غور کریں گے اور واقعی اس میں وزن ہوا تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی بات کرچکے ہیں اور ہمارا ایک ہی آپشن ہے، دوسرا آپشن چھوڑا ہی نہیں ہے لہٰذا اس طرح کے سوالات ان سے پوچھیں جن کے ذہن میں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے مذاکرات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وزیراعظم کے کسی پیغام کا انتظار ہے اور نہ کوئی پیغام ملا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ سیاست میں بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں لیکن بات وہاں پہنچ جاتی ہے تو امکانات ختم ہوتے ہیں تاہم اگر وہ استعفی دینے کے اصول پر آتے ہیں تو پھر آگے کیا کرنا ہے اس پر بات ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہاستعفیٰ اور اس مطالبے کو تسلیم کیے بغیر وہ یہ سمجھے کہ ہم مذاکرات کریں گے تو قطعاً کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔
میر حاصل بزنجو نے اس موقع پر کہا کہ کہا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں مولانا صاحب کے ساتھ نہیں ہیں، ایسا پروپیگنڈا کر کے اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد پہلی ملاقات میں ہی ہماری تجویز تھی کہ یہ دھاندلی زدہ انتخابات ہیں اس لیے ان اسمبلیوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی بات مان کر اسمبلیوں میں گئے۔
سینیٹر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف ہے کہ موجودہ حکومت جعلی ہے، وقت اور حالات نے ثابت کر دیا ہے، یہ منتخب حکومت نہیں ہے اور کوئٹہ سے قاسم سوری کا الیکشن اس کا ثبوت ہے۔