امریکا کی جانب سے جنگ کی آگ میں جلتے ہوئے اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں اضافے کے بعد افغان طالبان کے ساتھ طے شدہ تاریخی امن معاہدے پر نظرثانی کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ طالبان امریکی فوجیوں کے انخلا کے بدلے میں اپنے وعدوں اور سیکیورٹی کی ضمانتوں پر پورا نہیں اتر رہے ہیں اور امریکا اب اس معاہدے پر نظر ثانی کرے گا۔
گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ نے جنگ کے خاتمے کے لئے دوحہ معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن تنازعہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے، طالبان نے متنبہ کیا ہے کہ نظرثانی سے اس معاہدے میں خلل نہیں پڑنا چاہئے، یہ کہتے ہوئے کہ اس کا مقصد ’محفوظ راستہ‘ دینا ہے اور امریکہ کو اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہونا چاہئے۔ طالبان بہت وسیع علاقوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور میدان جنگ میں برتری رکھتے ہیں اور ان کے خیال میں وہ اپنی شرائط پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اس جائزے کا کیا فائدہ ہوگا کیوں کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے،لیکن اس بات کی توقع نہیں ہے کہ معاہدے میں خلل پڑے گا،جو سالوں کے مذاکرات کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کو بھی سربراہ مذاکرات کار کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کے لئے کہا ہے، اور اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ طالبان کو مزید بااختیار بنانے کے بجائے معاہدے کو برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انٹرا افغان مذاکرات دوحہ میں شروع ہوئے ہیں لیکن اس میں پیش رفت روی کا شکار ہے، افغان حکومت پارلیمانی جمہوریت کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جبکہ طالبان شریعت قانون کی تلاش میں ہیں، اور یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ کہیں 1996والی صورتحال دوبارہ نہ پیدا ہوجائے،اُس دوران افغانستان میں پر تشدد کارروائیاں، خودکش حملوں، ججوں، میڈیاکے افراد اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
پاکستان نے کہا ہے کہ افغان امن عمل ایک اعلیٰ درجے کے مرحلے پر پہنچ گیا ہے جس کے لئے دونوں جانب سے مصالحت کی ضرورت ہے،پاکستان اس بات کے حق میں نہیں ہے کہ امریکی انتظامیہ افغان امن معاہدے پر نظر ثانی کرے، پاکستان چاہتا ہے کہ افغان امن عمل کامیاب ہو، تاکہ افغانستان میں بھارت کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ کم ہوسکے اور دہشت گردی کی کارروائیوں پر قابو پایا جایا سکے۔
طالبان ایک سیاسی حقیقت ہیں اور ان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا لیکن افغان عوام کو متضاد اسٹیک ہولڈرز کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہ مناسب وقت ہے کہ اس معاہدے پر نظرثانی کرنے کے لئے طالبان پر دباؤ بڑھایا جائے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا آسانی سے افغانستان سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ ابھی بھی دور دور تک ایسا کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کہ افغانستان کے عام لوگ مستحکم ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور سکون کا سانس لے سکیں گے۔