حکومت کانیاہتھیار

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 جمعیت علماء اسلام پاکستان سے نکالے جانے والے مولانامحمدخان شیرانی کابیانیہ آگیاہے انہوں نے اپنے رہائش گاہ پرنئی جماعت کی بنیادرکھنے کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہاکہ میں 1994میں عرب و عجم کے علما ء کے خلاف رائے رکھتا تھا کشمیر کے جہاد کو فساد کہتا تھا، میں افغان جہاد کو نہیں مانتا تھا میں فرقہ وارانہ تنظیموں کوکرائے کے قاتل کہتا تھا میں نے ایم ایم اے کو ملا ملٹری الائنس کہا ہے میں نے آزادی مارچ پر کہا تھا جیسے گئے ہیں ویسے واپس آئیں گے۔

پاکستان مزدوروں کا عالمی چوک ہے، مولوی فتوے کے لئے، جنرل کرائے کے لئے جبکہ میڈیا پروپیگنڈے کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے قبل وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کابیان بھی دے چکے ہیں ۔

مولانامحمدخان شیرانی نے جوبیانیہ دیاہے وہ اگرچہ نیانہیں ہے ان کے خیالات شروع دن سے اسی قسم کے ہیں مگرپہلے ان کے اس طرح کے بیانات کابوجھ مولانافضل الرحمن اوران کی پارٹی اٹھاتی تھی اب یہ بوجھ وہ خود اٹھائیں گے اسرائیل کوتسلیم کرنے سے لے کرکشمیرجہادکوفسادکہنے والے پاکستانی معاشرے میں کتنی پذیرائی حاصل کرپائیں گے اس کااندازہ توسب کوہے مگراس طرح کے متنازع بیانات دے کروہ حکومتی حلقوں میں نمایاں ہونے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ ان دنوں اسلام آبادمیں انسانوں کا جمعہ بازارلگاہواہے جہاں خوب بھاؤتاؤہورہاہے ۔

پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو۔۔ دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
جب شہر کھنڈر بن جائے گا پھر کس پر سنگ اٹھا ؤگے
اپنے چہرے آئینوں میں جب دیکھو گے ڈر جا گے

مولاناشیرانی کاکشمیراورافغان جہادکے خلا ف اس طرح کی ہرزہ سرائی کرنااوراسرائیل کوتسلیم کرنے کے نعرے لگانایہ ثابت کرتاہے کہ وہ کس ایجنڈے پرچل رہے ہیں ؟ان کی ڈوریں کون ہلارہاہے ،وہ پہلے جمعیت علماء اسلام کے دستوراورمنشورکے پابندتھے اس لیے کھل کرایسی باتوں کااظہارنہیں کرتے تھے اگرچہ نجی مجلسوںمیں وہ اس طرح کی باتیں کرتے رہتے تھے مگراب جماعتی طوق ان کی گردن سے اترچکاہے اورجماعتی پابندیوں کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں اس لیے انہوں نے برملاوہ بات کہہ دی جوان کے دل میں تھی وہ جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے ایسے بیانات کے لیے فضاسازگاربنائی ہوئی ہے ورنہ پہلے تواس کی طرح کی بات عام آدمی برداشت نہیں کرتاتھا اورنوجوان سڑکوں پرنکل آتے تھے ۔

مولانافضل الرحمن سے نالاںیہ چندرہنماحکومتی خرچ پراسلام آبادکے ٹھنڈے موسم میں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں، جمعیت علماء اسلام نظریاتی اورجمعیت علماء اسلام شیرانی گروپ میں یہ مقابلہ ہے کہ کون مولانافضل الرحمن کے خلاف بیانات دے کرحکومتی حلقوں میں بہتر پذیرائی حاصل کرتاہے ؟دونوں رہنماؤں نے اپنی اپنی پریس کانفرنسوں میں مولانافضل الرحمن کوخوب لتاڑاہے جس کے بعد دونوں گرپوں کی آؤبھگت شروع ہوگئی ہے ۔حکومتی حلقوں کی طرف سے دونوں گروپوں کوسینیٹ کی ٹکٹ اوراسلامی نظریاتی کونسل کی ممبرشپ سمیت دیگرمناصب کا،،لارا،،دیاجارہاہے اس لیے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے نائب امیرمولاناعبدالقادرلونی دس بندوںکے ،،لشکر،،کے ہمراہ حکومتی دروازوں پردستک دے رہے ہیں جبکہ اب مولاناشیرانی پورے ملک سے اکٹھے کیے گئے بارہ بندوں کے ساتھ میدان میں اترے ہیں ۔

مولانامحمدخان شیرانی کابیانیہ حکومتی حلقوں کے زیادہ قریب ہے کیوں کہ حکومتی اقدامات ان کے بیانیے کی تائیدکرتے ہیں ،وزیراعظم عمران خان کے وہ پرانے مداح ہیں، ماضی میں مولانامحمدخان شیرانی جب اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین تھے تووہ قادیانیوں کے خلاف آئینی ترمیم پرنظرثانی کی بات کرچکے ہیں ان کامؤقف تھا کہ قادیانیوں کوجن دلائل کی بنیادپرغیرمسلم قراردیاگیاہے وہ دلائل نہایت کمزورہیںنئے اورمضبوط دلائل کے ساتھ نئی ترمیم لائی جائے ان سے جب پوچھا گیاکہ آپ کس طرح کہہ رہے ہیں کہ وہ دلائل کمزورہیں توانہوںنے بتایاکہ بنی گالہ کے پہاڑوں کے قریب رہنے والے ایک مفتی صاحب نے مجھے ایک کتاب لاکردی ہے جس میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے اوران مفتی صاحب کایہ بھی کہناہے کہ بڑے خان صاحب کی خواہش ہے کہ اس ترمیم پرنظرثانی کی جائے ۔

مولاناشیرانی اورمولاناعبدالقادرکومولانافضل الرحمن کااحسان مندہوناچاہیے کہ مولانافضل الرحمن کی وجہ سے حکومتی وزاراء ان کے قدموں میں بچھے جارہے ہیں، مشیروں اوروزراء نے اپنے دروازے ان کے لیے واکردیے ہیں ان کے لیے مختلف دسترخوا ن چنے جارہے ہیں ان دونوں گروپوں سے پہلے حکومتی ترجمان سرکاری خرچ پران کی ترجمانی کررہے ہیں ،میڈیاان کے آگے پیچھے بھاگ رہاہے ان کی ٹوٹی پھوٹی اردواورلہجے کوصاف کرکے بریکنگ نیوزکے طورپرچلایاجارہاہے ۔یہ واقعی مولانافضل الرحمن کی کرامت ہے کہ مولاناشیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سینیٹ اورقومی اسمبلی کے رکن رہے مگرانہیں اس طرح کی پذیرائی نہیں ملی تھی اب اچانک یہ دونوں دھڑے اتنے اہم ہوگئے ہیں کہ ان کے بغیرکسی ٹی وی کاخبرنامہ نہیں چلتاحالانکہ قومی اسمبلی ،سینیٹ اورچاروں صوبائی اسمبلی میں ان کی نمائندگی نہیں ہے ۔

ان سے پہلے لاہورمیں مقیم ایک اورمولاناصاحب نے بھی خوب رنگ جمایا اچانک انہیں یادآیاکہ انہیں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے اسرائیل کے دورے پربھیجاتھا یارلوگوں نے اس پرخوب ٹرینڈچلائے،کچھ لوگوں نے نوازشریف کے اتحادیوں سے سوالات پوچھناشروع کردیئے کہ بتاؤکہ اب یہودی ایجنٹ کون ہوا؟ حکومت مولانااجمل قادری کے بیان کواب تک اچھال رہی ہے مگریہ زحمت نہیں کررہی ہے کہ مولانااجمل قادری کوطلب کرے ان سے تحقیقات کرے کہ وہ کس طرح کب اورکیوں اسرائیل گئے ؟اورمولاناشیرانی سے بھی پوچھے کہ آپ نے کس طرح ریاست کی پالیسی سے ہٹ کراسرائیل کوتسلیم کرنے کابیان دیاہے ۔ظاہرہے کہ حکومت یہ کام نہیں کرے گی کیوں کہ اس طرح کے بیانات دراصل اسرائیل کے حق میں راہ ہموارکرنے کی مہم کاحصہ ہیں ۔

موجودہ حکومت پہلے دن سے مولانافضل الرحمن پرالزام لگاتی ہے کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کررہے ہیں، دینی مدارس کے طلباء کواپنی تحریک کاایندھن بنارہے ہیں مگرپوچھنایہ تھا کہ گزشتہ دوہفتوں سے حکومت کے وزاراء ،مشیراورترجمان مولافضل الرحمن کے خلاف کون ساکارڈ استعمال کررہے ہیں ؟مولانامحمدخان شیرانی ،حافظ حسین احمد،مولاناعبدالقادرلونی ،مولانااجمل قادری یہ مذہبی کارڈ نہیں ؟کیاحکومتی بیانیہ مولانافضل الرحمن کے خلاف اتناکمزورہے کہ وہ اس حدتک آگئے ہیں کہ جن افرادکومولانافضل الرحمن نے اپنی جماعت سے نکال دیاہے ان کے سہاروں کی ضرورت پڑگئی ہے ۔

اگرمولانافضل الرحمن کے خلاف حکومت کے پاس نیب ،ایف آئی اے اورمنفی پروپیگنڈے کے بعدصرف یہ ہتھیارہاتھ آیاہے اگرتحریک انصاف سمجھتی ہے کہ واقعی انصاف کاپیمانہ یہ ہے توپھرپی ٹی آئی بانی ارکان جسٹس (ر)وجیہہ الدین ،اکبرایس بابر،حامدخان سمیت کئی سینئررہنماؤں کوپارٹی سے نکالنے کے بارے میں کیاکہے گی ؟کیاان رہنماؤں کے بیانات کواس طرح پذیرائی بخشی جائے گی جوجے یوآئی سے نکالے گئے رہنماؤں کوبخشی جارہی ہے ؟۔

مولانامحمدخان شیرانی گروپ کاپہلا اجلاس نہایت مایوس کن تھا کئی دن کی محنت اورپوری تیاری کے بعد وہ پورے ملک سے ڈیڑھ درجن بنداکٹھے کرسکے اوران کادعویٰ ہے کہ انہوں نے جمعیت علماء اسلام پاکستان سے جمعیت علماء اسلام ف کونکال دیاہے ۔

ان کایہ دعویٰ ہی مضحکہ خیرہے کیوں کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان الیکشن کمیشن میں مولانافضل الرحمن کے نام سے رجسٹرڈ ہے جس کی قومی اسمبلی ،سینیٹ ،خیبرپختونخوا ،بلوچستان اورگلگت بلتستان اسمبلی میں نمائندگی ہے ۔

اب قوم کیسے آنکھیں بندکرکے یہ قبول کرلے کہ پارٹی سے نکالے جانے والے اصل ہیں ؟ جبکہ جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے رہنماء مولاناعبدالقادرلونی جواس وقت حکومت کوچونالگانے میں مصروف ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ الیکشن میں انہوں نے صوبائی اسمبلی کے امیدوارکے طورپر 474ووٹ حاصل کیے تھے حکومت ان کے زورپرمولانافضل الرحمن کوتوڑنے میں لگی ہوئی ہے۔اس پرمولاناظفرعلی خان کے اس شعرمیں ذراسی ترمیم کرکے یہی کہاجاسکتاہے کہ

بابوں کے فتوؤں کا سستا ہے بھاؤ
ملتے ہیں اب کوڑی کے عوض تین تین
خدا نے بھی ڈھیل دی انکو یہ کہہ کر
واملی لھم ان کیدی متین

Related Posts