اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں شمار ہوتی ہے ،خیالات و نظریات کا اظہار و اختلاف رائے کا حق کسی بھی جمہوری معاشرے کے بنیادی اصول ہوتے ہیں تاہم جمہوری معاشروں میں آزادی اظہار پر کسی بھی قسم کی قدغن کو دیگر تمام بنیادی حقوق پر قدغن کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی فضا تنگ ہورہی ہے ، موجودہ حکومتی کی جانب سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے کے بعد سوشل میڈیا کو بھی اپنے زیر کنٹرول لانے کی کوششیں جاری ہیں۔کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر نے سوشل میڈیا قوانین کی منظوری کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے آزادئ اظہار رائے پر قدغن قراردیا ہے۔
سی پی این ای کے صدر عارف نظامی ، ڈاکٹر جبار خٹک، عامر محمود ودیگر عہدیداران نے سوشل میڈیا قوانین پر تنقید کرتے ہوئے حکومتی اقدام کو معلومات تک رسائی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
سی پی این ای عہدیداران کا کہنا ہے کہ حکومت میڈیا اور انٹرنیٹ کو اپنے قابو میں رکھنے کیلئے کوشاں ہے اور سٹیزن پروٹیکشن قوانین 2020پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت اور اظہار رائے کی آزادی کیخلاف براہ راست خطرہ بن گئے ہیں۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا سوشل میڈیا کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کا دفاع کرتے ہوئے کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر صارفین کے حقوق کا تحفظ ضروری ہے لیکن پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھاجس کی وجہ سے ضروریات کے تحت قواعد وضوابط بنائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا قوانین کا مقصد آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانا نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر مختلف عناصر جعلی اکاؤنٹس بنا کر پاکستانی سلامتی کیخلاف محاذ آرا ہیں ، سوشل میڈیا کو معاشرے میں عریانی پھیلانے کیلئے بھی استعمال کیا جا رہا ہےتاہم پاکستان میں موجودہ قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں سوشل میڈیا کمپنی کو بند کیا جا سکے گا لیکن یہ کمپنیاں اپنے خلاف پابندی پر عدالتوں سے رجوع کر سکیں گی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے قیام سے اب تاحال ملک کے عوام کیلئے کوئی اہم منصوبہ بنانے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا پر شدیدتنقید کا سامنا ہے جبکہ اقتدار میں آنے سے قبل پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی اپنا پیغام عوام تک پہنچاتی رہی ہے جبکہ اقتدار میں آنے کے بعد سوشل میڈیا پر قدغن لگائی جارہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی توانائیاں عوام کی آواز دبانے کیلئے صرف کرنے کے بجائے مثبت اقدامات اٹھائے کیونکہ سوشل میڈیا پر پابندی سے عوام کو نہیں خود حکومت کو نقصان ہوگا۔