گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے، سابق صہیونی وزیر دفاع نے اپنی فوج کو بے نقاب کردیا

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گالانٹ کے انکشافات سے اسرائیل میں بھونچال آگیا، فوٹو بی بی سی

گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق اسرائیل کے سابق وزیر دفاع یوآف گالانٹ نے غزہ جنگ کے دوران صہیونی فوج کی جانب سے پھیلائے گئے جھوٹے دعوؤں کی قلعی کھولنا شروع کر دی ہے۔

یوآف گالانٹ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے جو مشہور تصویر جاری کی تھی، جس میں ایک “زیر زمین سرنگ” کو دکھایا گیا تھا، جو فیلاڈیلفیا محاذ پر موجود بتایا گیا تھا، وہ سراسر جھوٹ تھا۔ گالانٹ کے مطابق جسے سرنگ کہا جا رہا تھا، وہ درحقیقت صرف ایک میٹر گہرا خندق تھا، کوئی سرنگ نہیں۔

واضح رہے کہ اگست 2024ء میں اسرائیلی فوج نے یہ تصویر بڑی کامیابی کے عنوان سے میڈیا کو جاری کی تھی اور اسرائیلی میڈیا نے بھی اسے بڑی “دریافت” کے طور پر پیش کیا تھا۔ میڈیا نے اس کو فلسطینی مزاحمت کا زیر زمین نیٹ ورک قرار دے کر دعویٰ کیا تھا کہ اس وسیع و عریض نیٹ نے اسرائیلی فوج کو حیران کردیا ہے۔

گالانٹ کے مطابق اس جھوٹ کا مقصد فیلاڈیلفیا روٹ کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل میں تاخیر پیدا کرنا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج نتن یاہو کے سیاسی مقاصد کے لیے غلط معلومات پھیلا کر عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے تاکہ رائے عامہ اور بین الاقوامی ردعمل کو متاثر کیا جا سکے۔

یہ فلسطینیوں کے خلاف بیانیے کو سخت کرنے اور انسانی امداد یا قیدیوں کے تبادلے جیسے حساس معاملات کو مؤخر کرنے کی ایک گھنائونی کوشش ہے۔ الجزیرہ کے مطابق اگست میں دریافت ہونے والی حماس کی اس “سرنگ” کا اسرائیل میں بڑا چرچا تھا۔

فوج کی جانب سے جاری کردہ وہ مشہور تصویر جس میں ایک عسکری گاڑی کو “سرنگ” سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا تھا، دراصل محض ایک عام سی نکاسی آب کی نالی نکلی۔

گالانٹ کے انکشافات سے اسرائیل میں بھونچال

گالانٹ کے اس انکشاف نے نہ صرف فوجی بیانیے کو جھٹکا دیا ہے بلکہ اسرائیل کے اندرونی سیاسی منظرنامے میں بھی زلزلہ پیدا کر دیا ہے۔  اسرائیلی سیاسیات کے پروفیسر محمد غازی الجمل نے اس انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گالانٹ کی حالیہ بات چیت دراصل اسرائیلی حکومت، فوج اور اپوزیشن کے درمیان شدید اختلافات کی غمازی کرتی ہے۔

ان کے مطابق یہ انکشافات ہر فریق کی جانب سے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہیں۔ یہ صورت حال ملک میں جاری سیاسی اور سیکورٹی بحران کی عکاس ہے جس کی اسرائیلی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔

اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائیر لاپید اور صدر اسحاق ہرزوگ پہلے ہی خانہ جنگی اور سیاسی قتل وقتال کے خطرات سے خبردار کر چکے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے جس “سرنگ” کی آڑ میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف اپنی “کامیابیوں” کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، اس کا مقصد قیدیوں کے تبادلے کی ممکنہ ڈیل میں تاخیر پیدا کرنا تھا۔ اب جبکہ حقیقت سامنے آ چکی ہے تو حکومت کا بیانیہ کمزور ہو رہا ہے۔ جبکہ اپوزیشن کا موقف مضبوط ہو رہا ہے، جو جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

پروفیسر الجمل کے مطابق اگرچہ نتن یاہو اس وقت پارلیمان میں اکثریت رکھتے ہیں اور ان کو دائیں بازو کی بھرپور حمایت حاصل ہے، لیکن اگر اپوزیشن اور عوامی دباؤ بڑھتا رہا تو اسرائیلی حکومت کو امن کے لیے سیاسی معاہدہ کرنا پڑ سکتا ہے۔

Related Posts