بھارت نے گزشتہ روز آرمی چیف جنرل بپن راوت کو ایک نئے تخلیق شدہ چیف آفس ڈیفنس اسٹاف کے عہدے پر فائز کردیا ہے، اس اقدام کابنیادی مقصد ایک جارحانہ فوجی کردار کے علاوہ فوج کی مختلف شاخوں کے مابین تعاون بڑھانا ہے۔
کارگل کی شکست کے بعد بھارت میں طویل عرصے سے ایسے کسی عہدے کے قیام کی ضرورت پر زور دیا جارہا تھالیکن کارگل کمیٹی کی سفارشات کو سیاسی نا اتفاقی اور تینوں افواج میں اس کی مخالفت کے سبب عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکاتھا ۔
وزیر اعظم مودی یوم آزادی کے اپنے خطاب میں چیف آف ڈیفنس اسٹاف کے عہدے کے قیام کا اعلان کیا تھاجس کے تحت ملک کے پہلے سی ڈی ایس کی تقرری کا اعلان کیا گیا۔
جائزہ کمیٹی نے رپورٹ میں لکھا تھا کہ کارگل کی لڑائی کے دوران بری فوج اور فضائیہ کے درمیان رابطے کی کمی تھی اور دونوں افواج مشترکہ لائحہ عمل کے بجائے الگ الگ کمانڈ پر کام کر رہی تھیں جس کی وجہ سے کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
جنرل راوت اس سے قبل لائن آف کنٹرول پار کرنے کے دعوئوں اور پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی بھی کرتے رہے ہیں جس پر ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفورکہنا تھا کہ بھارتی آرمی چیف اس طرح خطے کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے بھارتی فوج کو ایک غنڈہ فوج میں بدل دیا ہے، وہ اپنی ہی فوج کو مروا رہے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کاکہنا تھا کہ بھارتی آرمی چیف کے ہاتھوں پر بے گناہوں کا خون لگا ہے۔
بھارتی فورسز کو پاکستانی مسلح افواج سے کئی بار بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ بھارتی آرمی چیف بپن راوت اپنے ہیلی کاپٹر کو گرانے کے بعد خود ہی ماتم کر رہے ہیں۔
1978 میں فوج میں کمیشن حاصل کرنے والے جنرل بپن راوت نے بطور بھارتی آرمی چیف 31 دسمبر کو ریٹائر ہونا تھا لیکن اب وہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کا عہدہ سنبھال لیں گے۔جبکہ ان کے نائب آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل منوج مکونڈ نروانے کو نیاآرمی چیف تعینات کر دیا گیا ہے۔
چیف آفس ڈیفنس اسٹاف کے عہدے کیلئے جنرل بپن راوت کو سب سے موزوں انتخاب قرار دیاجارہاہےجبکہ بپن راوت کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ان کی نئی تقرری سامنے آئی تاہم یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ آخر اس عہدے کیلئے بپن راوت کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا۔
جنرل راوت کو چیف آف ڈیفنس اسٹاف مقرر کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب حزب اختلاف کی جماعتیں شہریت قانون کی مخالفت کرنے والوں کے بارے میں ان کے ایک بیان پر نکتہ چینی کر رہی ہیں۔
24 دسمبر کو بھارتی حکومت نے فوجی امور کا ایک محکمہ قائم کرنے کی منظوری دی تھی جس میں فوجی افسروں کے ساتھ ساتھ سویلین افسر بھی کام کریں گے جبکہ جنرل راوت اس محکمے کے سربراہ ہوں گے اوریہ اپنی نوعیت کا نیا محکمہ ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی شائد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اب بھارتی فوج کو بھی سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی کوشش کررہے ہیں ، کیونکہ اس سے قبل بھارت کی فوج حکومتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی تھی اس لئے بھارتی سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ جنرل بپن راوت بی جے پی کے فوجی مشیر کے طور پر کام کرینگے۔جنرل بپن راوت نے روایات سے ہٹ کر اکثر وبیشتر سیاسی بیان بازی سے خود کوسیکولراسٹیٹ کہلانے والے بھارت میں فوجی مداخلت کا نیا باب کھول دیا ہے۔