پاکستان کا رخ کرنے یا پاکستان سے ہو کر گزرنے والے پرندوں میں سے بہت سے سائبیریا یا دیگر سخت سردی والے علاقوں سے بھی آتے ہیں۔ یہ پرندے ہر سال ایک محدود عرصے کے لیے پاکستانی جھیلوں اور ڈیموں کے کنارے یا پھر ان گیلے سرسبز خطوں میں قیام کرتے ہیں۔موسم سرما میں پاکستان کے ساحلی علاقوں کا رخ کرنے والے پرندوں کوغیر قانونی شکار کرکےمار نے کا سلسلہ تاحال جاری ہے، مہمان پرندوں کے شکار پر پابندی کے باوجود پاکستان میں غیر قانونی شکار جاری ہے اور عرب شہزادوں کو ان پرندوں کے شکار کیلئے مکمل طور پر استثنیٰ حاصل ہے۔
اس سال بھی وفاقی حکومت نے بحرین اور قطر سمیت مختلف عرب معززین کو بین الاقوامی سطح پر محفوظ پرندوں کے شکار کے لئے خصوصی اجازت نامے جاری کیے ہیں۔ عرب شیوخ ان نایاب پرندوں کے شکار کیلئے لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں، پرندوں کا گوشت عرب شیوخ کی مرغوب غذا سمجھا جاتا ہے جس کیلئے وہ شکار میں معاونت کرنے والوں کو بھی بھاری انعامات سے نوازتے ہیں۔
حکومت شکار کے سیزن میں دس دن کی مدت کے دوران ایک شکاری کو سو پرندوں کو گولی مارنے کی اجازت دینے کے لئے دو درجن سے زیادہ خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے۔ اس پر کبھی بھی عمل درآمد نہیں ہوتا اور اکثر حد سے تجاوز کر جاتا ہے جبکہ محکمہ وائلڈ لائف بے بس اور بااثر شکاریوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
یہ پرندے دراصل وسطی ایشیائی خطے سے سردیوں میں گرم موسم علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں ان کی تعدادمیں کمی دیکھنے میں آئی ے۔
خلیجی ریاستوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات برقرار رکھنے کے لئے حکومت نرم سفارت کاری کے طور پر یہ اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان حال ہی میں بحرین گئے تھے جہاں انہیں ملک کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دیا گیا تھا۔ پاکستان کے قطر ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خطرے سے دوچار پرندوں کی قیمت پر سرکاری سفارتی تعلقات برقرار رکھنا درست ہے ؟۔
سائبیریا سے نقل مکانی کرکے آنے والے پرندوں میں تلور، کونج، واٹر برڈ ،فالکن، و دیگر پرندے شامل ہیں،2015 میں سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کردی تھی لیکن حکومت نے خاموشی سے ’تیتروں کے شکار‘ کے لائسنس کے نام پراجازت نامے جاری کردیئے۔
بہت سے افراد حکومتی اجازت ناموں کے اجراکے فیصلے کا دفاع کرتے ہیں کیونکہ اس سے مقامی لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے جو شکار کا انتظام کرتے ہیں ، مقامات کی نشاندہی کرتے ہیں اور پرندوں کے گھونسلے کے مقامات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان مقامی افراد کو پرکشش معاوضے دیئے جاتے ہیں اور ان کا خاندان پورا سال اس پر انحصارکرتا ہے۔ اس سے صوبائی حکومتوں کو بھی محصول حاصل ہوتا ہے جو تلورکے شکار کے لائسنس کیلئے بھاری فیس حاصل کرتے ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں متعدد غیر ملکیوں کو بغیر کسی اجازت کے بلوچستان میں شکار کے جرم گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے بھی ایسے ہی واقعات پیش آچکے ہیں تاہم مشرق وسطیٰ کے معززین کو نایاب پرندوں کی نسل کو معدومیت کی طرف دھکیلنے کے لئے یہ کوششیں ناکافی ہیں، حکومت مہمان پرندوں کے شکار پر فوری طور پر پابندی عائد کرے ورنہ جس بے دردی سے ہجرت کرنے والے پرندوں کا شکار جاری ہے وہ دن دور نہیں جب پاکستانی علاقوں سے تلور،کونج، بٹیر اور شاہین نظر آنا بند ہو جائیں گے۔