امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو معاف کر دیا ہے، جنہیں جھوٹے بیانات دینے اور غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے کے الزامات میں سزا ہوئی تھی، ہنٹر نے وفاقی ٹیکس چوری کے مقدمے میں بھی اعتراف جرم کیا تھا۔
بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا:میں نے اپنے بیٹے ہنٹر کے لیے معافی نامے پر دستخط کیے ہیں۔ جب میں نے عہدہ سنبھالا، میں نے کہا تھا کہ انصاف کے شعبے کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کروں گا اور میں نے اپنا وعدہ نبھایا، باوجود اس کے کہ میں نے اپنے بیٹے کو غیر منصفانہ اور جانبدارانہ طور پر نشانہ بنتے دیکھا۔”
وائٹ ہاؤس نے بارہا کہا تھا کہ بائیڈن اپنے بیٹے کی سزا معاف نہیں کریں گے۔ ہنٹر جو منشیات کے عادی رہ چکے ہیں، ریپبلکن خصوصاً نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نشانہ بنے۔بائیڈن نے کہا:”ہنٹر کے مقدمات کی حقیقتوں پر غور کرنے والا کوئی بھی معقول شخص یہ نتیجہ نکالے گا کہ اسے صرف اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ میرا بیٹا ہے۔”
ہنٹر بائیڈن کو جھوٹے بیانات اور گن کے الزامات پر بدھ کو سزا سنائی جانی تھی۔ ستمبر میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ 14 لاکھ ڈالر کے وفاقی ٹیکس ادا کرنے میں ناکام رہے جبکہ یہ رقم منشیات، جنسی کارکنوں اور پرتعیش اشیاء پر خرچ کی گئی تھی۔ اس مقدمے میں انہیں 16 دسمبر کو سزا سنائی جائے گی۔
ہنٹر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا:”میں نے نشے کی تاریک ترین دنوں میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور ان کی ذمہ داری لی ہے۔ ان غلطیوں کو سیاسی کھیل کے طور پر میرے اور میرے خاندان کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی دی گئی معافی کو کبھی نظرانداز نہیں کریں گے اور اپنی زندگی ان لوگوں کی مدد کے لیے وقف کریں گے جو اب بھی اس جدوجہد میں مبتلا ہیں۔
صدر بائیڈن نے اپنے مخالفین پر الزام عائد کیا کہ وہ ان کے بیٹے کو توڑنے کے لیے جانبدارانہ مقدمات کے ذریعے انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گن فارم پر غلط بیانی جیسے الزامات میں شاذ و نادر ہی مقدمہ چلتا ہے اور نشے کی وجہ سے ٹیکس ادا نہ کرنے والے اکثر مجرمانہ سزا کے بجائے مالی جرمانے ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا:یہ واضح ہے کہ ہنٹر کے ساتھ مختلف سلوک کیا گیا۔ ان کے مقدمات کے الزامات میرے سیاسی مخالفین کی جانب سے اٹھائے گئے، جنہوں نے میری مخالفت اور انتخاب کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسا کیا۔ ہنٹر کو توڑنے کی کوشش میں، انہوں نے مجھے توڑنے کی کوشش کی۔ لیکن اب یہ ختم ہونا چاہیے۔”