افغان صدارتی انتخابات اور امن عمل

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

افغانستان میں ہونیوالے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق صدر محمداشرف غنی نے 9 لاکھ23 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرلی ہے اور دوسری مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوگئے ہیں ۔افغانستان کے موجودہ چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ 7لاکھ20 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔

افغانستان میں سال 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد یہ چوتھے صدارتی انتخابات تھے ۔افغانستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث انتخابات کاعمل کئی بار ملتوی کرنا پڑاتایم تین ماہ قبل 28؍ ستمبر2019 کو منعقدہوئے ۔

جہا ں افغانستان میں انتخابی عمل جاری تھا وہیں ساتھ ساتھ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان بات چیت بھی جاری تھی قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نو دور مکمل ہونے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ دونوں فریقین امن معاہدے کے مسودے پر دستخط کے قرب پہنچ چکے ہیں وہیں کابل میں ہونیوالے ایک خودکش حملے کے بعد امن مذاکرات کا عمل معطل ہوگیا تاہم گزشتہ ماہ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی راہ ایک بار پھر ہموار ہوئی ہے ۔

افغان الیکشن کی سربرا ہ کے مطابق صدارتی انتخابات میں طالبان کی دھمکیوں اور مخدوش سیکورٹی صورتحال کے باعث 18 لاکھ24 ہزارسے زائد ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا اور انتخابات میں ٹرن آؤٹ 18 فیصد سے زیادہ رہا جو گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں سب سے کم ٹرن آؤٹ ہے جبکہ پہلے صدارتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ 70 فیصد تھا ۔

ملک میں جاری خانہ جنگی سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کی وجہ سے تحریک ِطالبان نے 1996ء میں کابل پر فتح حاصل کر لی تھی تاہم اسکے پانچ سال بعد امریکا نے القاعدہ کو پناہ دینے والی طالبان حکومت کو ختم کرنے کیلئے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد شروع ہونیوالی جنگ واشنگٹن کا اب تک کا سب سے طویل تنازع چلا آرہاہے۔

پاکستان افغانستان میں جاری دہشت گردی اور خانہ جنگی سے سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جبکہ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کیلئے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے، آج جب افغانستان میں جمہوری عمل مزید استحکام کی جانب گامزن ہے وہیں امن کیلئے بھی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات آخری مرحلے کی طرف جارہے ہیںاور ان مذاکرات کی کامیابی کیلئے پاکستان کا کردار بھی خلوص دل کے ساتھ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے جس کے بغیر طالبان کا کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا شاید ممکن نہ ہوتا۔

Related Posts