آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں پناہ گزینوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے جبکہ دنیا بھر میں مجموعی طور پر 27 کروڑ 20 لاکھ افراد آج بھی پناہ گزین بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے عالمی دن کا تصور سب سے پہلے فلپائنی مہاجرین اور دیگر ایشیائی مہاجرین کی تنظیموں میں پیدا ہوا جبکہ سال 1997ء میں پہلی بار یومِ پناہ گزین اقوامِ متحدہ کی رہنمائی کے بغیر منایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کہیں مہاجر ہونا مشرف کی سزا کا سبب تو نہیں ؟ متحدہ
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پناہ گزینوں کے عالمی دن کی قرارداد 4 دسمبر 2000ء میں منظور کی گئی جس کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ یہ دن ہر سال پوری دنیا میں منایا جائے گا۔
کسی بھی ناگزیر سبب کے باعث اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ممالک کو ہجرت کرنے والے افراد کو پناہ گزین کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنا ملک چھوڑ کر جہاں بھی جائیں، وہ ان کا وطن نہیں بن سکتا، اکثر و بیشتر انہیں نئے ملک میں شہریت بھی نہیں دی جاتی۔
پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو بہتر مستقبل یا ملازمت کے لیے اپنا وطن چھوڑتے ہیں جبکہ نئے دیس میں انہیں الگ قسم کے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنا ہے جبکہ آج اکیسویں صدی میں بھی کروڑوں لوگ پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بے بس اور بے وسیلہ پناہ گزین کے مسائل کا امیر ملک ادراک نہیں کرسکتے، دنیا سے ایسے حالات کا خاتمہ کرنا ہوگا جس سے لوگ پناہ گزین بنتے ہیں، مشکلات کے باوجود افغان مہاجرین کی میزبانی پر پاکستانی قوم قابل تعریف ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں گزشتہ روز پناہ گزینوں کے پہلے عالمی فورم کا آغاز ہوا جس کی مشترکہ صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پہلے ریفیوجی گلوبل فورم کے انعقاد پر بہت خوشی ہے اور میں دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی کرنے پر ترک صدر رجب طیب اردوان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: پناہ گزین کے مسائل کا امیر ملک ادراک نہیں کرسکتے،وزیراعظم