6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو صدر نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے، سپریم کورٹ

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

army chief SC
6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو صدر نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا تعین کرے، 6 ماہ میں قانون سازی نہ ہوئی تو صدر نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہ میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا 43 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے اور چیف جسٹس پاکستان کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

فیصلے میں کہا گیاہے کہ اگر 6 ماہ میں قانون نہ بن سکا توآرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 29 نومبر 2019 سے ریٹائر تصور ہوں گے اور صدر پاکستان، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر حاضر سروس جنرل کا بطور آرمی چیف تقرر کریں گے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتی تحمل کو غیر مقبول نظریہ ضرورت کے ساتھ نہ جوڑا جائے، ادارہ جاتی پریکٹس قانون کا مؤثرمتبادل نہیں ہوسکتا۔ ادارہ جاتی پریکٹس کے تحت ایک جنرل 3 سال کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائرڈ ہوتا ‏ہے۔

عدالتِ عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ متعد دفیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ قانونی سازی کرنا پارلیمنٹ کااختیار ہے، کیس کی سماعت کے دوران ہم نے آئین کے آرٹیکل 243 اور آرمی رولز کاجائزہ لیا لیکن پاکستان آرمی ایکٹ کے اندر آرمی جنرل کی مدت اور توسیع کا کوئی ذکر نہیں جب کہ آرٹیکل 243 کے تحت چیف آف آرمی سٹاف کی تنخواہ اور دیگر مراعات کا تعین صدر مملکت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: عدالت نے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کردیا

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل نےاعتراف کیا کہ 243 کےتحت ریٹائرڈ جنرل بھی آرمی چیف ہوسکتا ہے، اٹارنی جنرل کے اعتراف کے بعد آرمی چیف کےعہدے سے متعلق بہت سے اہم سوالات اٹھتےہیں۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری حکومت قوانین کی ہے یا افراد کی، حکومت نے قوانین پرعمل کرنا ہے اور ‏قانون کے تحت جنرل کے رینک کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمریا مدت ملازمت نہیں دی گئی۔

ارکان پارلیمنٹ نیا قانون بنائیں جس سے ہمیشہ کیلئے آرمی چیف کی پیش گوئی ممکن ہو سکے اور یہ یاد رکھیں کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو قوم ترقی کرے گی، اداروں کی مضبوطی میں ہی قوم کا مفاد ہے، پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی نہ ہونے کے نتیجے میں جنرل کے عہدہ کی 3 سال کی روایت لاگو ہوگی۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ بے ضابطہ نہیں چھوڑیں گے، اٹارنی جنرل نے 6 ماہ میں قانون سازی کی یقین دہانی کروائی ہے، اگر اس مدت میں قانون سازی نہ ہوسکی تو آرمی چیف ریٹائرڈ تصور ہوں گے اور صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر نئے آرمی چیف کا تقرر کریں گے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے ہے کہ آرمی ریگولیشنز پر مہر لگی ہے کہ یہ ممنوع ہیں، آرمی ریگولیشنز پر لکھا ہے یہ دستاویز پریس یا کسی غیرمتعلقہ شخص کو نہیں دی جاسکتی، پارلیمنٹ کے قانون اور ماتحت قوانین عوامی دستاویزات ہیں، صرف دفاعی قوتوں، دفاعی تنصیبات اور قومی سیکیورٹی کے ریکارڈ سے متعلق استثنا ہے اور یہ پابندی آرمی قوانین سے متعلق نہیں ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلے کے آخر میں اضافی نوٹ میں 1616 میں چیف جسٹس آف انگلینڈ کے فیصلے کا ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے، قواعد بنانے سے عوام کے منتخب نمائندوں کا اقتدار اعلیٰ مضبوط ہوگا۔

Related Posts