عالمی عدالت میں روہنگیا نسل کشی کیس کی سماعت

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب
The Israel-U.S. nexus for State Terrorism
اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ: ریاستی دہشت گردی کا عالمی ایجنڈا
zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

میانمار میں آمریت کیخلاف جہدوجد کیلئے معروف اور انسانی حقوق کی علمبردار آنگ سانگ سوچی گزشتہ روز میانمار میں مسلم اقلیت روہنگیا کی نسل کشی کے الزامات پر اپنی فوج کا دفاع کرنے کیلئے عالمی عدالت پہنچیں۔

خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلوانے والی آنگ سانگ سوچی کی جانب سے عصمت دری، قتل غارت اور ملک بدری جیسے الزامات کا دفاع اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے ۔

آنگ سانگ سوچی نے عالمی عدالت میں روہنگیا نسل کشی کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2017 میں ہونے والے فسادات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ کیا ایسے ملک میں نسل کشی کا تصور کیا جا سکتا ہے جہاں غیر قانونی عمل پر فوج کے آفیسرز اور اہلکاروں سے نہ صرف تفتیش کی جاتی ہے بلکہ انہیں کڑی سزائیں بھی دی گئیں۔

میانمار کیخلاف یہ مقدمہ مغربی افریقہ کے مسلم اکثریت والے ملک گیمبیا نے درجنوں مسلم ممالک کی طرف سے دائر کیا ہے۔اس مقدمے کے لیے گیمبیا کو اسلامی تعاون کی تنظیم، او آئی سی اور بین الاقوامی وکلا کی ایک ٹیم کی حمایت حاصل ہےجبکہ نیدرلینڈاور کینیڈاکی حمایت بھی اس کیس میں گیمبیا کے ساتھ ہے۔

2017 کے آغاز میں میانمار میں دس لاکھ روہنگیا آباد تھے۔ یہ لوگ زیادہ تر میانمار جسکا پرانا نام برما ہے کی ریاست رخائن میں رہتے تھے۔روہنگیا کی جانب سے طویل عرصے سے یہ شکایت کی جاتی رہی کہ ان پر ظلم و ستم ہو رہا ہے اور پھر 2017 میں فوج کی طرف سے رخائن میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کیا گیا۔

فوج پر الزام ہے کہ اس نے روہنگیا کے خلاف اکتوبر 2016 سے ’بڑے پیمانے پر منظم طریقے سے کلیئرنس آپریشن‘ شروع کیا۔جس کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا جبکہ 7 لاکھ کے قریب مسلمانوں نے بنگلادیش ہجرت کی تھی۔

عدالت میں ان الزامات پر سماعت ہو گی کہ اس کلئیرنس ’کا مقصد بطور گروہ روہنگیا کو مکمل طور پر یا حصوں میں قتل، ریپ کرنا تھا اور کئی ایسی عمارتوں کو بھی آگ لگائی گئی جن میں لوگ موجود تھے۔

اقوام متحدہ کے فیکٹ فائنڈنگ مشن نے بظاہر بہت سے الزامات کی تصدیق کی ہے۔ اگست میں آنے والی ایک رپورٹ میں یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ میانمار کے سپاہیوں کو منظم طور پر عورتوں، لڑکیوں، لڑکوں اور خواجہ سراؤں کے خلاف ریپ، گینگ ریپ ، تشدد اور زبردستی جنسی افعال کرنے کو کہا گیا۔

کیس کی ابتدائی کارروائی کے دوران بین الاقوامی عدالت انصاف سے عارضی طور پر روہنگیا کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی جائیگی کیونکہ نسل کشی کے الزامات پر فیصلہ آنے میں برسوں لگ سکتے ہیں۔

میانمار کی فوج پر سوچی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے لیکن سوچی کو جرائم میں برابر کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ سوچی سے نوبل انعام واپس لینے کی صدائیں بھی سننے میں آئی ہیں جبکہ امریکا نے انسانیت سوز کارروائیوں پر میانمار کے آرمی چیف پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔

سوچی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ہو سکتا ہے فوج نے کہیں کہیں طاقت کا غیر مناسب استعمال کیا ہو اوراگر فوجیوں نے جنگی جرائم کیے ہیں تو ان کو سزا دی جائے گی تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ سوچی نے اسی فوج کے لئے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے جس نے انہیں کئی سالوں تک نظربند رکھا۔ خود کو جمہوریت کی چیمپئن کی حیثیت سے منوانے والی آنگ سانگ سوچی کی حیثیت آج میانمار اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیادے سے زیادہ کچھ نہیں ۔

Related Posts