حکومت کا ڈیجیٹل پاکستان کی جانب ایک اور قدم

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وزیر اعظم نے پاکستان کو ڈیجیٹل خطوط پر استوار کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیجیٹل پاکستان ہمارا مستقبل ہے اور اس کے ذریعے دنیا کی دوسری سب سے بڑی نوجوان آبادی کا حامل ملک ہونے کی بدولت ہماری آبادی ہماری طاقت بن جائے گی۔

انسان ایک سماجی جانور ہے۔یہ تنہا نہیں رہ سکتا اور سماج سے اپنا رابطہ کسی نہ کسی طریقے سے استوار کیے رکھتا ہے۔ یہ معلومات کی کھوج میں رہتا ہے اور اسی سے ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ انسان بولنا چاہتا ہے۔ کچھ اپنی سنانا اور کچھ دوسرے کی سننا چاہتا ہے یعنی معلومات کا تبادلہ کرنا چاہتا ہے۔

ریڈیو اور ٹیلی فون کی طرح انٹرنیٹ کے وجود آنے کے پیچھے بھی وہی ضرورت تھی جس کے تحت انسان آسان سے آسان طریقے سے رابطہ اور معلومات کا تبادلہ چاہتا ہے۔ دنیا بھر میں انٹرنیٹ آزادی کے حوالے سے رپورٹ جاری میں مسلسل 9ویں سال پاکستان کو انٹرنیٹ آزادی نہ رکھنے والا ملک قرار دیا گیا ہے اس کی بنیاد وجہ پاکستان میں انٹر نیٹ کا منفی استعمال ہے ۔

تحریک انصاف حکومت اپنے قیام سے اب تک مسلسل جدید دنیا کے ساتھ قدم ملانے کیلئے نئے پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی کی کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں میں کاغذوں کا استعمال ختم کرکے تمام ریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرکے ڈیجیٹل میڈیا پر انحصار بڑھایا جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے کاکہنا ہے کہ اب ہماری پوری توجہ ڈیجیٹل پاکستان منصوبے پر ہو گی جس کے ذریعے ہم نوجوانوں کی صلاحیتیں دنیا بھر کے سامنے لائیں گے اور اس ایک چیز سے ہماری نوجوان آبادی ہمارے لیے طاقت بن جائے گی کیونکہ ہمارے پاس دنیا میں دوسری سب سے بڑی نوجوان آبادی ہے، یہ ہمارے لیے بہت بڑا موقع ہے اور ہم اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔

پاکستان میں باصلاحیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو گھر بیٹھے ماہانا لاکھوں ڈالر کما کر دے سکتی ہے لیکن انہیں بیرون ملک مقیم کلائنٹس سے لین دین کے لیے بہترپلیٹ فارم میسر نہیں ہے جس کیلئے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے پے پال یا اس سے ملتا جلتا آن لائن پے منٹ پلیٹ فارم متعارف کرانے کا اعلان بھی کیا تھا۔

پے پال پاکستان آگئی تو اس سے ناصرف 2 لاکھ فری لانسرز اور 7 ہزار رجسٹرڈ چھوٹے کاروبار کرنے والے افراد کو سہولت ملے گی بلکہ ہزاروں ایسے آن لائن کام کرنے والے افراد بھی ہیں جو رجسٹرڈ نہیںان کو بھی مزید کام کرنے کا موقع ملے گا۔

پے پال دنیا بھر میں آن لائن ادائیگیوں کا نظام چلاتی ہے جس سے رقم آن لائن طریقے سے منتقل کی جاتی ہے اور پے پال دنیا بھر کی 190 مارکیٹس میں آپریٹ کرتی ہے جبکہ پے پال کسی مارکیٹ میں شامل ہونے سے قبل رقوم کی منتقلی کی تعداد اور بینک اکاؤنٹس دیکھتی ہیں اور پاکستان میں پی او ایس اور کریڈٹ کارڈز کی رسائی بہتر نہیں۔

اسٹیٹ بینک پاکستان میں الیکٹرانک منی انسٹی ٹیوشن (ای ایم آئی) کے طور پر کام کرنے کے لیے ‘نیاپے کو اصولی منظوری دے چکا ہے جبکہ پاکستان پوسٹ نے بھی صارفین کو جدید سہولیات فراہم کرتے ہوئے نجی و کاروباری امور کے لیے رقوم منتقل کروانے والے افراد کی آسانی کے پیش نظر الیکٹرانک منی آرڈر سروس کا آغاز کردیاتاہم پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے مزید اقدامات ضرورت ہے۔

موجودہ ڈیجیٹل عہد میں صارف کی توقعات تیزی سے بدل رہی ہیں ،گوگل کا کہنا ہے کہ پاکستان تیزی سے ڈیجیٹل ملک بن کر ابھر رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ متعدد برانڈز کے لیے یہاں لاتعداد مواقع ہیں جہاں وہ اپنے صارفین سے براہ راست ’رابطہ‘ قائم کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں پے پال کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر پاکستانی انٹرنیٹ پر فری لانس کام کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں کاغذ کے نوٹ کا استعمال بھی متروک ہوتا جارہاہے، ڈالر، یورو، پائونڈ، درھم کی جگہ کرپٹو کرنسی نے لے لی ہے ، تقریباً پوری دنیا میں اس وقت کرپٹو کرنسی میں لین دین ہورہاہے جبکہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر بھی پابندی ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اس وقت ڈیجیٹل کرنسی پر انحصار کررہی ہیں۔

گلوبلائزیشن کے دور میں نت نئے منصوبے دراصل ریاست کی جغرافیائی حدود کو مبہم کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر مختلف گروہوں کو تجارتی روابط میں باندھ رہے ہیں لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عوام کو بِٹ کوائن سمیت تمام قسم کی کرپٹو کرنسیوں سے بچنے کی ہدایت کی ہے۔

اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ ان کرنسیوں یعنی کوائنز اور ٹوکنز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے کسی بھی شخص سے ملکی قوانین کے مطابق بازپرس کی جائے گی۔

17ویں صدی میں بارٹر سسٹم ختمہونے کے بعد کرنسی نوٹ کا آغاز ہوا تو لوگ طویل عرصے تک اُسے قبول نہ کرسکے حالانکہ نوٹ کی رقم کے پیچھے اُس کی حقیقی مالیت چاندی کی صورت میں موجود تھی۔

آج استعمال ہونے والے نوٹ کی حقیقی قیمت موجود نہیں اس نوٹ کی حقیقی قدر صرف وہ اعتماد ہے جو ہم مالیاتی اداروں پر کرتے ہیں۔ لیکن یہ اعتماد بھی اسوقت پارہ پارہ ہوگیا جب 2008ءمیں عالمی مالیاتی بحران آیا، امریکی و یورپی حکومتوں نے بحران میں پھنسے مالیاتی اداروں کو سہارا دینے کیلئے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپے س کے نتیجے میں کئی بینک اور ہزار ہا کاروباری ادارے دیوالیہ ہوئے۔

یوں بینکوں پر سے عوام کا اعتماد جاتا رہا اور تجارت کی دنیا میں خلا آگیا جس نے 21ویں صدی کی کرنسی کی ایک ایسی جہت سے روشناس کروایا جس کا تصورآج سے پہلے موجود نہیں تھا۔اس کا نام کرپٹو کرنسی ہے جوکہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اور مالیاتی ادارے اور حکومتیں اس کے پیچھے کھڑی ہونے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں ۔

آئندہ دور ڈیجیٹل ایج ہے اور باقی ہرچیز کی طرح کرنسی بھی ڈیجیٹل ہی چلے گی، اگر پاکستان جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرکاری سطح پر اس کے آغاز کے لیے اقدامات کرسکے تو عالمی معیشت کو اپنی مٹھی میں کرسکتا ہے۔

بِٹ کوائن دراصل ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے آپ کو ٹیکنالوجی کے ایک بالکل نئے رخ کو اپنے ذہن میں اتارنا پڑتا ہے۔ یہ کرنسی حسابی عمل لوگرتھم کی بنیاد پر کام کرتی ہے، جو کہ کرپٹولوجی اور کرپٹو گرافیکل تکنیک سے تیار کی جاتی ہے ،اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ یہ 2009ءمیں متعارف ہوئی اور فروری 2011ءمیں ایک بِٹ کوائن کی مالیت ایک امریکی ڈالر کے برابر پہنچ گئی۔ پھر اس ابھرتی ڈیجیٹل کرنسی نے مڑکر نہ دیکھا اور چھلانگیں مارتی ترقی کرنے لگی۔

آج ایک بٹ کوائن کی تقریباً 11لاکھ 30 ہزار پاکستانی روپوں سے زائد ہے۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ بِٹ کوئن کمانے یا حاصل کرنے میں اس وقت تک کسی شخص یا کسی بینک کا کوئی اختیار نہیں ہے، یہ کرنسی عالمی طاقتوں کی پابندیوں اور ورلڈ بینک کی اجارہ داری سے پریشان پاکستان جیسے ممالک کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں کیونکہ یہ عالمی ساہوکاروں کی گرفت سے آزاد ہے۔

Related Posts