نیٹو ایک سیاسی اور عسکری اتحاد ہے جویورپ اور شمالی امریکا کے 29 رکن ممالک کو یکجا کرتا ہے۔یہ ممالک سلامتی اور دفاع کے شعبے میں تعاون کرنے کےلئے اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے نیٹوسیاسی اور سلامتی کے تعاون کے لئے ان دو براعظموں کے درمیان ایک منفرد رابطہ فراہم کرتا ہے۔
نیٹو سربراہ اجلاس لندن میں منعقد ہورہا ہے، اتحادکے رکن ممالک کے لندن میں منعقدہ اجلاس میں شریک ہورہے ہیں جس میں نیٹو کے مستقبل کے حوالے سے بھی غور کیا جائے گا۔
نیٹو سربراہ اجلاس سے قبل 2اہم رکن ممالک ترکی اور فرانس کے تعلقات میں کشیدہ دیکھنے میں آئی، شام میں کردوں کے خلاف ےترکی کی کارروائی پر تنقید کرکے فرانسیسی صدر نے کشیدگی کی ابتدا کی۔ ان کے جواب میں پہلے ترک وزیر خارجہ اور دیگر حکام کی جانب سے جوابات سامنے آئے بعد ازاں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے بیان میں فرانسیسی صدر کی مذمت کرکے بھرپور رد عمل دیا۔
فرانس نے پیرس میں تعینات ترک سفارت کار کو وزارت خارجہ میں طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمادیا، جس میں واضح کیا گیا کہ صدر ماکروں کا بیان حکومت کاسرکاری موقف تھا جب کہ ترک صدر نے اس کے جواب میں ان کی توہین کی ہے۔
فرانسیسی صدر نے ترک حکومت کے اقدامات کو احمقانہ قرار دیا تھاتودوسری جانب ترک صدر کا ردعمل میں کہنا تھا کہ صدر ماکروں کو سب سے پہلے اپنی دماغی موت کا جائزہ لینا ہوگا۔
یہ بیانات صرف ایسے لوگوں کے لیے موزوں ہیں جو دماغی طور پرمردہ ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ انہیں ماکروں کی دماغی حالت پر شک ہے اور وہ نیٹوکے اجلاس میں بھی یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہیں گے۔
نیٹو کی بنیاد ’’ اجتماعی دفاع ‘‘ کی شرط پر رکھی گئی تھی جہاں ایک ممبر پر حملہ تمام ممبروں کے خلاف حملہ سمجھا جاتا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ماکروں اور اردوان کے مابین الفاظ کی جنگ میں کودتے ہوئے انہوں نے کانفرنس کے ایجنڈے کو ہلانے کی کوشش کرنے پر فرانسیسی صدرکو لتاڑتے ہوئے کہا کہ نیٹو ایک بہت بڑا مقصد ہے اور ماکروں کے تبصرے انتہائی توہین آمیز تھے۔
نیٹوکی بنیاد ستر سال پہلے سرد جنگ اور سوویت جارحیت کے خاتمے کیلئے رکھی گئی تھی تاہم آج بھی روس کی جانب سے نئے خطرات اور سائبرحملوں سے بچائو کیلئے ہزاروں نیٹو فوجی تعینات ہیں جبکہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں بھی دہشت گردی کا مقابلہ کررہے ہیں۔
نیٹو کو اس وقت اپنی بقا کے حوالے سے سب سے بڑا خطرہ درپیش ہے، امریکی صدر نیٹو کے اخراجات کے حوالے سے یورپ سے ناراض دکھائی دیتے ہیں اور نیٹو منصوبوں میں امریکی اخراجات کم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد نجی تقاریب میں یہ کہتے نظر آئے ہیں کہ امریکا مغربی دفاعی اتحاد سے نکلنا چاہتا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ امریکا کے یورپی اتحادیوں کو واشنگٹن سے یہ توقع نہیں کرنی چاہیے کہ مغرب کی اجتماعی سکیورٹی کا زیادہ تر بوجھ اٹھائے۔ ٹرمپ نے جوکچھ کہا اس میں نئی بات کوئی نہیں کیونکہ نیٹو گزشتہ پون صدی سے اپنی اہمیت برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
ٹرمپ اصل میں اس 29رکنی اتحاد کے رکن ممالک کے دفاعی اخراجات میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ”اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ یورپ اور کینیڈا دفاع کی مدد میں اپنے اخراجات میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔
برسوں تک دفاعی بجٹ میں کٹوتیوں کے بعد اب ان ممالک میں ایک مرتبہ پھر دفاعی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب زیادہ اتحادی ممالک دو فیصد جی ڈی پی کی شرط پوری کر رہے ہیں۔‘‘